اسرائیل ایک دہشت گرد ریاست

فلسطین ایمرجنسی روم۔
کیا حماس کا اسرائیل پہ حملہ غیر ضروری تھا اس حملے کی کیا وجوہات تھیں؟
اخر فلسطین کی اس حالت کا ذمہ دار کون ہے ؟
فلسطین کے مسئلے کا کیا حل ہے ؟
کیا یہ مذہبی جنگ ہے ؟
اسرائیل ایک دہشت گرد ریاست۔

فلستین لہو لہو

ایک مسلمان عورت کے سر سے ایک یہودی نے دوپٹہ کھینچا تھا تو ہمارے پیغمبر محمد صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے اس پورے قبیلے کے خلاف جنگ چھیڑ دی تھی اسی طرح صلاح الدین ایوبی کی بہن نے صرف اواز لگائی تھی جب اس کو اس وقت کے ایک عیسائی شہزادے نے کہا کہ اج بلاؤ اپنے نبی محمد کو۔ میں دیکھتا ہوں کہ تمہیں کون بچاتا ہے . تو اس نے یہی اواز لگائی تھی یا محمدہ۔۔۔ یعنی اے محمد میری مدد کرو اور صلاح الدین ایوبی نے پوری صلیبی سلطنت کو الٹا کر رکھ دیا تھا ۔

سات اکتوبر 2023 کو حماس نے اسرائیل کے اوپر اٹیک کیا جس کے جواب میں اسرائیل نے ایک پورے کا پورا ملٹری اپریشن لانچ کیا غزہ کے خلاف جس کے اندر اب تک 30 ہزار سے زیادہ سویلینز بچے عورتیں بوڑھے مرد جوان شہید ہو چکے ہیں اسرائیل نے براہ راست اسکولوں ہاسپٹلز مساجد رہائشی عمارتوں کو نشانہ بنایا یہ جانتے ہوئے کہ یہاں پہ ایک بہت بڑی سویلین ابادی رہتی ہے۔ پورے غزہ کی سویلین ابادی تقریبا 24٫, 25 لاکھ ہے جس میں سے اب تک 30 , 35 ہزار لوگ شہید ہو چکے ہیں اسرائیل نے بار بار وہاں جنگی جرائم کیے اور مسلسل حملے جاری ہیں غزہ کے اوپر ۔

سوچنے کی بات یہ ہے کہ کیا حماس کو نہیں پتہ تھا کہ جن کے پاس ایئر فورس بھی نہیں ہے کہ اگر وہ اس طرح کا اٹیک کریں گے جس میں انہوں نے کامیابی بھی حاصل کی اسرائیل کا ائرن ڈوم تباہ کرتے ہوئے بہت سے راکٹ اسرائیل پہ گرائے اور کافی اندر تک بھی گئے اور بہت سے اسرائیلی فوجیوں کو گرفتار بھی کیا لیکن کیا ان کو نہیں پتہ تھا کہ اس کے بعد اسرائیل جو کچھ کرے گا اور جس طرح ہمیشہ کی طرح ایکسس اف ایول یعنی شیطانی حالہ جو امریکہ اسرائیل اور برطانیہ بھی ہے یہ پوری طرح سے اسرائیل کا ساتھ دیں گے اور ہمیشہ کی طرح باقی مسلمان ممالک خاموش تماشائی بنے رہیں گے اور اسرائیل پھر سے فلسطینی مسلمانوں کا قتل عام کرے گا جو کہ اس نے کیا تو کیا حماس کو یہ نہیں پتہ تھا؟

تو اس حملےکی کیا وجوہات ہیں؟

اسرائیل نے فلسطین پر کئی جنگیں چھیڑی 1948 میں پھر 1949 اور 56 میں اس کے بعد 1967 میں جس کو عرب اسرائیل وار بھی کہتے ہیں جس میں شام مصر اور اردن نے مل کے اسرائیل کے خلاف جنگ لڑی لیکن ہار گئے اس دوران تقریبا ایک پرسنٹ ابادی غزہ کی یا تو مار دی گئی یاان پر تشدد کیا گیا اور ان کو قیدی بنا لیا گیا ۔ اس کے بعد فرسٹ انتفادہ 1987 جس کا مطلب ہے پہلی عرب اپ رائزنگ یا بغاوت جس میں تقریبا 1000 سے زیادہ فلسطینی لوگوں کو مار دیا گیا اس کے بعد سن 2000 میں جب تین ہزار غزہ کے لوگوں کو مار دیا گیا اس کے بعد 2007 میں غزہ پر حماس کا دوبارہ کنٹرول ہوا انہوں نے وہاں الیکشن بھی جیتا اور پوری طرح سے کنٹرول سنبھالا لیکن 2007 میں اسرائیل نے غزہ کی ہوائی سمندری اور زمینی بلاکج شروع کر دی اور اس کو دنیا کی سب سے بڑی جیل میں بدل دیا گیا اس کے بعد 2008 اور 2009 میں بھی غزہ کے اندر حملے کیے گئے جس میں 1500 سے زیادہ اموات ہوئیں مسلمانوں کی اور اس حملے میں بھی گھروں کو اسکولوں کو اور ہسپتالوں کو نشانہ بنایا گیا۔
یہاں یہ بات نوٹ کرنے کے قابل ہے کہ پچھلی ہونے والی لڑائیوں میں جب غزہ اسرائیل کے قبضے میں گیا تو انہوں نے خود وہاں کے سب سے بڑے شفا ہسپتال کے نیچے اسرائیل نے خود اپنی فوجی پناہ گاہیں بنائیں تھیں جس کا اج الزام حماس پر ڈالا جاتا ہے کہ وہ جان پوچھ کے انسانوں کو ہیومن شیلڈ کے طور پر استعمال کرتے ہیں۔ اکتوبر 2023 میں اسی ہاسپٹل کے اوپر اسرائیل نےاٹیک کیا حماس کے اڈوں کا بہانہ بنا کے۔ اصل میں وہ اپنے ہی نشان مٹا رہے تھے۔

2007 سے اب تک غزہ کو ایک لونگ ہیل یعنی جھنم بنا دیا گیا اور دنیا کی سب سے بڑی جیل میں بدل دیا گیا اس کو سمندر کی طرف سے زمین کی طرف سے اور جو اس کو راستہ ویسٹ بینک سے جوڑتا ہے وہاں سے اور ہوائی طرف سے بھی یعنی ہر طرف سے بلاک کر دیا گیا۔
وہاں پہ پانی کی بھی مسلسل کمی رہتی ہے بجلی کی بھی کمی رہتی ہے وہاں پہ پوری طرح سے پلان کر کے کلنگز کی جا رہی تھی وہاں کا 97 فیصد پانی پینے کے قابل ہی نہیں اور وہاں پہ رہنے والی 70 فیصد فیملیز این جی اوز کے اوپر ڈیپینڈ کرتی ہیں وہاں سے فلسطینیوں کے کہیں بھی انے جانے کے اوپر سخت پابندیاں ہیں۔ اور چیک پوائنٹس کے اوپر مسلمان خواتین سے بدتمیزی کی جاتی ان پر لفظی اور جسمانی جنسی حملے کیے جاتے ان کے سروں سے دوپٹے کھینچے جاتے ہیں اور ان کا مذاق اڑایا جاتا۔

اکثر بہانے بنا کے خود ہی اشتعال دلا کر چھوٹی موٹی لڑائیوں میں ہزاروں فلسطینیوں کو قیدی بنا لیا گیا جس میں حماس کے کئی لیڈرز بھی شامل ہیں۔ اور 2018- 19 میں جب غزہ کے لوگوں نے پرامن طور پہ اپنے حقوق کے لیے بارڈر پر مارچ کی تو 190 فلسطینیوں کو شہید کر دیا گیا اور 28 ہزار کو زخمی کر دیا گیا ۔

اور دوسری طرف پوری دنیا میں خصوصا ویسٹرن ورلڈ میں میڈیا پر فلسطینیوں خصوصاََ غزہ پہ ہونے والے ان مظالم کی رپورٹس کو دبایا جاتا رہا یہی وجہ ہے کہ جب حماس نے اکتوبر 2023 میں اسرائیل پہ راکٹ برسائے تو اسی میڈیا نے صرف وہاں سے رپورٹنگ شروع کی اور اس سے پہلے ہونے والی تمام باتوں کو تمام مظالم کو دباتے رہے اسی لیے دنیا کو یہ لگتا ہے کہ حماس نے حملہ اچانک کیا۔ اور اس کی ضرورت نہیں تھی۔ یعنی صورتحال خراب ہوتی جا رہی تھی صرف دنیا سے چھپایا جا رہا تھا۔

اس کے علاوہ اس حملے کی وجوہات میں یہ بھی ہے کہ سال 2021 سے لے کر اب تک مسجد اقصی پہ کئی دفعہ حملے کیے گئے اس کی بے حرمتی کی گئی 2023 کی جنگ سے پہلے 2021 سے لے کے اکتوبر 2023 کے درمیان بھی تین چار سو فلسطینیوں کو مارا گیا۔
اسرائیل کے جو بھی مرتے ہیں اس میں زیادہ تر ان کے فوجی ہوتے ہیں جبکہ دوسری سائیڈ پہ سویلینز کو مارا جاتا ہے ایئر فورس کا استعمال کر کے۔
. اسماعیل ہانیہ نے اسرائیل پہ حماس کے حملے کی وجہ ایک یہ بھی بتائی کہ ہمارے 12 ہزار قیدی جس میں حماس کے جنگجو بھی شامل ہیں اور عام فلسطینی بھی شامل ہیں ہم اسرائیلی فوجیوں کے بدلے ان کی رہائی بھی چاہتے تھے

اس حملے کی ایک اور بڑی وجہ یہ بھی ہو ہے کہ سعودی عرب اسرائیل کو تسلیم کرنے کی طرف جا رہا تھا جس کے لیے بات چیت بھی چل رہی تھی اور یہی پریشر پاکستان میں بیٹھے طاقتور لوگ اسٹیبلشمنٹ وہ اس وقت کی حکومت اور اس وقت کے وزیراعظم عمران خان پر بھی ڈال رہے تھے کہ وہ اسرائیل کو تسلیم کریں . اور جب عمران خان صاحب نے ایک ہی سال میں دو دفعہ او ائی سی کی کانفرنس بلا کر فلسطین اور کشمیر کے مسئلے پر زور دیا تو محمد بن سلیمان ان سے ناخوش تھا . اس لیے جب ارمی نے عمران خان کی حکومت گرائی تو محمد بن سلیمان نے ان جنرلز کو سعودی عرب میں ویلکم کہا. دوسری طرف بحرین اور یو اے ای بھی مان چکے تھے۔

اور جیسا کہ اب نیتن یاہو نے بیان دیا ہے کہ مجھے کوئی پرواہ نہیں دو ریاستی حل کی مجھے کوئی پرواہ نہیں فلسطینی ریاست کی۔ یہ جو دو ریاستی حل دیا گیا ہے عرب ممالک کی طرف سے کہ ایک فلسطینی ریاست ہو اور ایک اسرائیلی ریاست ہو اب مجھے اس کی کوئی پرواہ نہیں اب صرف اسرائیلی ریاست ہوگی اس نے تب بھی یہی کرنا تھا لیکن بیچ میں یہ جنگ چھڑ گئی ۔

2016 میں جب ٹرمپ امریکہ میں پاور میں ایا اس نے اسرائیل کے ایمبیسڈر سے پوچھا کہ کیا تم امن چاہتے ہو تو اس نے پوچھا کس سے تو ٹرمپ نے کہا کہ ظاہر ہے میرا مطلب فلسطینیوں کے ساتھ امن سے ہے تو اسرائیلی ایمبیسیڈر نے کہا کہ نہیں لیکن ہم عرب ریاستوں کے ساتھ امن قائم کر سکتے ہیں ان کے ساتھ اپنے حالات نارمل کر سکتے ہیں اور اسی سلسلے میں ابراہیم اکورڈ بنایا گیا ۔ٹرمپ اصل میں یہ خواہش رکھتا تھا کہ اسرائیل اور فلسطینیوں کے درمیان امن قائم کیا جائے اور اس چیز سے اس کو پوری دنیا میں بہت ریکگنیشن ملتی کیوں کے امریکی الیکشن میں اس کی بہت مخالفت ہوئی تھی ۔
لیکن اسرائیل صرف اس بات پہ راضی ہوا کے ہم عرب ریاستوں کے ساتھ اپنے تعلقات نارملائز کر سکتے ہیں جو 1967 کی وار کے بعد خراب ہو چکے ہیں
اور اس پہ اسرائیل بڑا خوش تھا کہ اس معاہدے کی وجہ سے جتنا ہم نے حصہ لے لیا ہے اب تک فلسطین کا وہ بھی ہمیں نہیں دینا پڑے گا اور ہم ہمیشہ کی طرح خاموشی سے ویسٹ بنک کے اندر اپنے لوگوں کو بھی آباد کرتے جائیں گے ۔ مہنگی جنگوں کے بغیر ہی اس کو اپنے مقاصد حاصل ہوتے نظر ارہے تھے ۔۔ وہ صرف وقت حاصل کر رہا تھا ۔ کیونکہ اس ایگریمنٹ کی جو شرط یو اے یو اے ای نے رکھی کہ اپ ویسٹ بینک کی بڑی بڑی زمینوں کو جو اپنے ساتھ ملانا چاہتے ہیں وہ نہیں ملائیں گے تو اس کا جواب نیتن یاہو نے اسرائیلی میڈیا کو دیا کہ یہ ضروری نہیں ہے کہ ہم اگر ابھی ویسٹ بینک کے مزید علاقے اپنے ساتھ نہیں ملائیں گے تو شاید اگے بھی ایسا نہ ہو۔ یعنی کسی بھی صورت اسرائیل فلسطینیوں کو کوئی بھی حق دینے پہ راضی نہیں تھا یہ معاہدہ اور اس سے پہلے ہونے والے بہت سے معاہدے چاہے وہ اوصلو اکارڈ ہو جس میں دو ریاستی حل دیا گیا تھا اسرائیل نے کسی بھی بات کو تسلیم نہیں کرنا تھا ۔

اج فلسطینیوں اور غزہ پہ ہونے والے مظالم کی سب سے بڑی وجہ وہ تمام عرب ریاستیں ہیں خصوصا سعودی عرب جنہوں نے اس وقت بھی صرف اپنے چھوٹے چھوٹے پرسنل مقاصد کی خاطر اپنی بادشاہتوں کی خاطر اور جو ان کے منہ کو پیسہ اور عیاشی لگی ہوئی ہے ان کی خاطر 1967 میں بھی جیتی ہوئی جنگ ہار دی تھی اپنے اندرونی اختلافات کی وجہ سے. یہ عرب ریاستیں جس میں سعودی عرب بھی شامل ہے اج بھی صرف اپنے ممالک میں نام نہاد ترقی کی خاطر امریکہ اسرائیل اور ساری ویسٹرن یورپین اقوام کے ساتھ معاہدے کرنا چاہتے ہیں اگے بڑھنا چاہتے ہیں اور فلسطینیوں کی ٹھیکے دار بن کے ان کی ازادی کا اور وہاں کے مسلمانوں کے خون کا سودا کرنا چاہتے ہیں اج جو کچھ فلسطینیوں کے ساتھ ہو رہا ہے اس کی ذمہ دار یہ سب مسلمان ممالک ہیں ۔
اور دوسری طرف انہوں نے ہمیشہ سے ایران کو اپنے لیے مسئلہ بنا کے رکھا ہے انہوں نے ہمیشہ ایران کو نشانہ پہ رکھا ہے کیونکہ ایران وہ واحد اسلامی ملک ہے جہاں پر بادشاہت کو مکمل طور پر ختم کر دیا گیا اور یہ اج بھی شیعہ سنی کی اس تقسیم پہ چل رہے ہیں جو انہی دشمنوں نے انہی یہود و نصاری نے مسلمانوں کے درمیان اس قدر وسیع کر دی کہ اج تک اس تقسیم کے اوپر یہ ہمیں لڑوا رہے ہیں اور ہم لڑ رہے ہیں یہ تقسیم ہم نے ہی پیدا کی لیکن دشمن نے اس تقسیم کو استعمال کیا اور ڈیوائڈ اینڈ رول کا فارمولا اپلائی کیا . تو صرف ایران کو خطے میں گھیرنے کے لیے اور اپنی بادشاہتوں کو قائم رکھنے کے لیے جو صدیوں پہلے امیر شام کے بعد شروع ہوئی تھی اور ان بادشاہتوں میں ملنے والی عیاشیوں اور طاقت کا نشہ ان عرب ریاستوں کو مجبور کرتا ہے کہ یہ امریکہ اسرائیل اور یورپی اقوام کے ساتھ ہاتھ ملائیں اور امریکہ اسرائیل اور یورپی اقوام کو اچھی طرح پتہ ہے کہ ایران شیعہ ہے یہ لوگ سنی ہے تو یہ ہمیشہ ایران کو ایک بڑا دشمن بنا کر پیش کرتے ہیں عرب ریاستوں کے سامنے.
عرب ریاستیں ایران کی پراکسی یعنی ایران کی ان خفیہ تنظیموں سے اپنے اپ کو بچانے کے لیے جس کی وجہ سے ان کی بادشاہتیں خطرے میں ا جاتی ہیں اسرائیل اور امریکہ کے ساتھ کھڑے ہو جاتے ہیں اور ہمیشہ فلسطین کی اقوام فلسطینی مسلمانوں کے خون کا سودا کر بیٹھتے ہیں .

یہاں یہ بتانا ضروری ہے کہ ایران نے ایران عراق جنگ جو 1980 میں ہوئی اس کے بعد یہ سمجھ لیا تھا کہ ابھی وہ امریکہ یا یورپی قوام سے ڈائریکٹلی جنگ نہیں کر سکتا کیونکہ 1980 میں اس کا بہت نقصان ہوا جس کے بعد ایران نے اپنی یہ خفیہ تنظیمیں یا پروکسیز بنائیں اور خطے میں پھیلا دی جس میں حزب اللہ لبنان میں سنی حماس فلسطین میں شام اور عراق میں القسام بریگیڈ شامل ہیں اور یمن میں حوثی بھی۔
اس کا یہ مطلب نہیں کہ ایران یہ سب کچھ کسی اسلامی جذبے کے تحت کرتا ہے یا ایران بالکل صحیح ہے اور باقی عرب ریاستیں غلط ہیں کیونکہ قطر بھی بہت حد تک حماس کو سپورٹ کرتا ہے لیکن دیکھا جائے تو ایران کی یہ چاروں پراکسیز جن کے خلاف لڑ رہی ہیں وہ ایک ہی طاقت ہے اور وہ ہے امریکہ اور اسرائیل اور ان کی پروکسیز جیسے ائی ایس ائی ایس جیسے انڈیا جیسے پاکستانی طالبان اور پاکستانی اسٹیبلشمنٹ بھی۔
اور یہ جو عرب ریاستیں کھلم کھلا فلسطین کو تسلیم نہیں کرتی وہ اس وجہ سے کہ ان ریاستوں کی عوام ابھی بھی اسرائیل کو اپنا دشمن سمجھتی ہے اور کیونکہ ان کی بادشاہتیں بھی مسلسل اپنے ہی خاندان کے لوگوں کی بغاوت کے خطرے میں گھری رہتی ہیں اس لیے ان کو مسلسل امریکہ کی اور یورپی اقوام کی مدد درکار ہوتی ہے اور یہ کہیں نہ کہیں اپنے عوام کی نبض چیک کرتے رہتے ہیں کہ ایا اگر ہم اسرائیل کو تسلیم کریں گے تو ہماری عوام کیا سوچیں گی اس کے علاوہ ان کو یہ بھی ڈر رہتا ہے کہ پھر ایران کی پراکسی یا دوسری سنی جہادی تنظیمیں ہمارا حال کیا کریں گی یہ چیزیں ان کو کھلم کھلا اسرائیل کو تسلیم کرنے سے روکتی ہیں۔

اب ان ساری باتوں کو ذہن میں رکھ کے ہمیں یہ سمجھ اتی ہے کہ حماس نے یہ حملہ کیوں کیا اور یہ جو سمجھا جا رہا ہے اور بتایا جا رہا ہے کہ یہ حملہ اچانک کیا گیا اور اس طرح دکھایا جا رہا ہے جیسے یہ ایک غیر ضروری اور اچانک حملہ تھا ایسا نہیں ہے
اس حملے سے پہلے بلا اشتعال مسلسل مظالم ڈھائے جا رہے تھے اسرائیل کی طرف سے اور عرب دنیا خاموشی سے اسرائیل کا ساتھ دے رہی تھی

ڈاکٹر عمر سلیمان نے بہت خوبصورتی سے اس بات کو سمجھایا کہ اصل میں غزہ کے مسلمانوں کو یہی چوائس دی گئی تھی کہ یا تو اہستہ اہستہ مرنے کے لیے تیار رہو یا پھر ہم تمہیں ایک ہی جھٹکے میں مار دیں گے.

تو فلسطینی مسلمانوں کے پاس بھی یہی چوائس تھی کہ یا تو مسلمان عورتوں اور بچوں اور جوانوں کو تھوڑا تھوڑا کر کے روز ذلیل شہید اور ان کی عزتوں کو تار تار ہونے دیا جائے یا پھر ایک ہی دفعہ کمر کسی جائے اور پوری قوت سے جہاد کیا جائے ۔
اس سلسلے میں افغانستان کی مثال بھی ہمارے سامنے ہے کہ جہاں پہ دہائیوں سے افغانیوں کا استحصال کیا گیا کبھی روس کی طرف سے کبھی برطانیہ اور کبھی امریکہ کی طرف سے اور جب انہوں نے اپنی ازادی کے لیے ہتھیار اٹھائے تو پھر ان پہ پوری طرح سے جنگ چھیڑی گئی اور ان کو اور بری طرح مارا گیا اور ہمیشہ کی طرح وہاں کی سویلین ابادی نشانہ بنی لیکن کیا یہ ازادی کی جنگ نہیں تھی کیا وہ اپنی ازادی کے لیے ہتھیار نہ اٹھاتے اور اج انہوں نے اخر کار امریکہ سے ازادی حاصل کی اور امریکہ کو افغانستان سے دھکیل دیا۔

اسرائیل نے جب بھی غزہ پر حملہ کیا تو اس نے ہمیشہ حماس کو جواز بنایا لیکن پھر کیا بات ہے کہ ویسٹ بینک میں بھی اسرائیل نے بے تحاشہ قتل و عام جاری رکھا خاص طور پہ 2021 سے لے کے اب تک بغیر کسی اشتعال کے ویسٹ بینک میں مسلسل سرحدوں میں اسرائیلی سیٹلرز نے نہ صرف عام فلسطینیوں کو نشانہ بنایا یعنی اسرائیل کے سویلین ابادی نے فلسطین کی سویلین ابادی کو نشانہ بنایا اور 2021 سے اب تک سینکڑوں فلسطینیوں کو ویسٹ بینک میں شہید کیا گیا وہاں پہ تو کوئی حماس نہیں تھی وہاں سے تو کوئی حملہ یا اشتعال نہیں ہو رہا تھا مسلمانوں کی طرف سے۔
دوسری طرف غزہ کے لوگ ویسٹ بینک میں مسلمانوں پر ہونے والے ظلم کو غورسے دیکھ رہے تھے وسٹ بینک میں مسلمانوں کی طرف سے کسی بھی قسم کے اشتعال نہ ہونے کے باوجود اسرائیلی حکومت اور وہاں بسنے والے اسرائیلی سیٹلرز جس طرح سے ظلم ڈھا رہے تھے مسلمانوں پہ اس چیز نے ویسٹ بینک میں بسنے والے فلسطینیوں کو بھی حماس کی طرف کھینچ دیا تھا یہی وجہ تھی کہ جب حماس نے اکتوبر 2023 میں اسرائیل پر حملہ کیا تو سب سے زیادہ خوشی ویسٹ بینک میں منائی گئی ۔ یہ تھا اس حملے کا پس منظر۔

اخر اج فلسطین کے مسلمانوں کی اس حالت کا ذمہ دار کون ہے؟

فلسطینیوں کی نسل کشی اور فلسطینیوں کی اس حالت کا ذمہ دار صرف وہ قوتیں ہیں جو نمبر ون ڈائریکٹلی ان کا قتل عام کرتی ہیں یعنی اسرائیل اور وہ اسرائیلی عوام ہے جو فلسطینی علاقوں میں جا کے قبضے کرتی ہے اور ان گاؤں دیہات اور شہروں میں نہتے فلسطینیوں پر حملے کرتی ہے اس کی ذمہ دار وہ یورپین اقوام ہیں جو اسرائیل کو مدد فراہم کرتی ہیں پیسہ بھی اور ہتھیار بھی اور اس کی اصل ذمہ دار وہ عرب ریاستیں ہیں جو یورپی اقوام امریکہ اور اسرائیل کے ساتھ پرکشش بزنس ڈیلز کی خاطر اپنے ہی فلسطینی بھائیوں کے خون کا سودا کرتی ائی ہیں اور بھرپور طریقے سے ایک ازاد فلسطینی ریاست کے پیچھے کھڑے ہونے کی بجائے صرف اپنے معاشی اہداف اور اپنی بادشاہتوں کو قائم کرنے کے لیے امریکہ کی آشیرباد کی منتظر رہتی ہیں۔ ان کے لیے فلسطین ایک مسلم امہ سے زیادہ زمین کے ٹکڑے کی ایک حیثیت رکھتا ہے ایسے ہی جیسے کوئی پراپرٹی ڈیلر پرکشش پراپرٹی اور زمینوں پر اپنی نظر رکھتا ہے۔ اور جیسا کہ اوپر بیان ہوا ہے کہ اس کی سب سے بڑی ذمہ داری سعودی عرب کے اوپر ہے جس کو پوری مسلم امہ کا لیڈر بننے کا شوق رہا ہے لیکن اس نے اج تک فلسطین کے لیے کوئی بڑا کام نہیں کیا بلکہ الٹا جب محمد بن سلیمان کی لیڈرشپ سے تنگ ا کر مہاتیر محمد نے کوالالمپور میں تر کی اور پاکستان کو انوائٹ کیا تو محمد بن سلیمان نے اس وقت کے پاکستانی وزیراعظم عمران خان صاحب کو دھمکی دی کہ اگر اپ میں سعودی عرب میں موجود پاکستانی مزدوروں کو نکال دوں گا۔

اسی طرح اسی خطے میں بسنے والےمسلمان ممالک یعنی ترکی اور پاکستان یہ بھی صرف اپنے اپنے ممالک کی فکر کرتے ہوئے چپ کر کے سائیڈ پہ بیٹھے ہیں اور اپنی باری کا انتظار کر رہے ہیں ۔جیسے فلسطینیوں کو یہ چوائس دی گئی کہ یا تو اہستہ اہستہ نسل کشی کے لیے تیار ہو جاؤ یا پھر ایک ہی دفعہ تمہیں مارا جائے گا ۔ اسی طرح یہ ممالک بھی بھی وقت کو دھکا دے رہے ہیں کہ تھوڑی دیر اور جی لیا جائے نہ کہ میدان میں اترا جائے اور اسرائیل اور امریکہ کی زیادتیوں اور مظالم کا جواب دیا جائے کیونکہ باری تو ان کی بھی ائے گی اسرائیل نہ فلسطین تک رکے گا نہ ایران تک رکے گا۔

لیکن مزے کی بات یہ ہے کہ پوری دنیا میں دو ہی ممالک ایسے ہیں جو نسل یا علاقائی بنیاد پر نہیں بنے ایک اسرائیل ہے اور دوسرا پاکستان پاکستان صرف اسلامی نظریے کی بنیاد پہ بنا تھا نہ کہ کسی نسل کی بنیاد پہ فلسطینی عوام بھی اپنی امیدیں پاکستان کے ساتھ ہی باندھتی ہے 1967 کی عرب اسرائیل وار نے یہ ثابت کر دیا کہ اس وقت بھی عرب ممالک کو اپنی بادشاہتیں اور اپنی اپنی نسلیں زیادہ عزیز تھیں نہ کہ اسلام۔ اسی لیے مسلمان جیتی ہوئی جنگ بھی ہار گئے جبکہ پاکستان نسل یا بادشاہت یا علاقائی بنیاد پہ نہیں بنا یہ خالص اسلامی بنیاد پہ اور مسلمانوں کے لیے بنا یہی وہ ایک ہلکی سی امید ہے جسے لگتا ہے کہ پاکستان اگر اپنے اندرونی خلفشار سے اور یہاں پائے جانے والی ان غیر مرئی طاقتوں سے چھٹکارا حاصل کر لے جو بین الاقوامی سامراج کے سائے میں کام کرتی ہیں تو پاکستان یقینا پوری دنیا کے مسلمانوں کو لیڈ کر سکتا ہے یہی وجہ ہے کہ پاکستان کو کبھی بھی اپنے پیروں پر کھڑا نہیں ہونے دیا گیا اور یہی وجہ ہے کہ پاکستان میں بار بار بادشاہت نما مارشل لا یا بادشاہانہ خاندان جمہوری لبادے میں لپیٹ کے دیے جاتے رہے ہیں

اخر فلسطین کے مسئلے کا کیا حل ہے

اس کے لیے ہمیں تاریخ میں اور صلاح الدین ایوبی کی تاریخ میں جھانکنا پڑے گا اور دیکھنا پڑے گا کہ اس نے وہ کیا کام کیے جس کی وجہ سے وہ یروشلم کو فتح کر سکا اس نے چار بڑے بڑے کام کیے اس نے اپنے اپ کو اپنی پوری زندگی کو صرف ایک مقصد کے پیچھے لگا دیا اس نے اس وقت کے بکھرے ہوئے اسلامی ممالک کو ایک جھنڈے کے نیچے اکٹھے کرنے کے لیے بے تحاشہ کوشش کی اس نے اس وقت اپنا ملک کردستان مصر عراق شام لبنان اور کویت کا خطہ جو اج کے ممالک ہیں اور کچھ حصہ ترکی کا ان سب کو اکٹھا کیا یہاں بسنے والے حکمرانوں کی جھوٹی اناؤ اور ان کے چھوٹے چھوٹے مقاصد کو برداشت کیا ان سے نرمی سے بات کی ڈپلومیسی سے کام لیا ان کو یہ باور کرایا کہ وہ کسی سیٹ کے پیچھے نہیں ہے بلکہ وہ صرف ایک مقصد کے پیچھے ہے کہ قدس یعنی یروشلم کو ازاد کروانا ہے وہاں کے مسلمانوں کو ازاد کروانا ہے اور اس کے لیے اپنی صفوں میں چھپے بے تحاشہ غداروں کو ڈھونڈا ختم کیا۔ بے تحاشہ جھگڑوں کا سامنا کیا اندرونی خلفشار کو برداشت کیا۔

کتنی ہی دفعہ اس کے مقاصد کو ناکام کرنے کے لیے اپنے ہی مسلمان حکمران اور میر جعفر میر صادق نما خود غرض لوگوں نے اپنے چھوٹے چھوٹے مقاصد کے لیے صلاح الدین کو تنگ کیا بلیک میل کیا لیکن وہ مرد کا بچہ کھڑا رہا ۔اس نے ان کو برداشت بھی کیا ان کو معاف بھی کیا جہاں ضروری تھا غداروں کو سزا بھی دی لیکن وہ ایک مقصد کے پیچھے لگا رہا ۔ اس کا ایک ہی مقصد تھا کہ میں نے ساری دنیا کے مسلمانوں کو ایک نقطے پہ مرکوز کرنا ہے ان کی ساری طاقت ان کا فوکس ایک جگہ پہ لگانا ہے اور وہ ہے قدس یروشلم کی ازادی۔ وہ اس نقطے کو جانتا تھا کہ اگر اپ ایک بہت بڑی افرادی قوت کو کسی ایک مقصد کے پیچھے لگا دیں اس کے اوپر فوکس کر لیں تو وہ مقصد حاصل ہو کے رہتا ہے اور یہی اس نے کیا تو اس طرح ان ممالک میں بسنے والے مسلمانوں اور ان کے حکمرانوں کو یہ یقین ہو گیا کہ یہ انسان ہماری ریاست اور ہماری حکمرانیوں کے پیچھے نہیں ہے یہ تو ایک مقصد کے پیچھے لگا ہوا ہے اور اہستہ اہستہ وہ اس کے جھنڈے تلے انا شروع ہو گئے اور اس مقصد کے لیے صلاح الدین ایوبی نے پوری دنیا کے اسلامک سکالرز اور یونیورسٹیز کو استعمال کیا اس نے قدس اور یعنی یروشلم کی فتح کو ایک جہاد اور ایک روحانی کام کا درجہ دیا ۔ اسلامی سکالرز نے پوری مسلم دنیا میں جا جا کے بتایا کہ یہ کتنا ضروری ہے یہ کیوں ضروری ہے ۔ اس وقت کے مسلمان خالی اس بات پہ خوش رہتے تھے کہ ٹھیک ہے ہمارے اگر حج کے راستے کھلے ہوئے ہیں اور اگر صلیبی ہمیں انے جانے کی اجازت دے رہے ہیں تو ٹھیک ہے ہماری عبادتیں ہو رہی ہیں ہمیں کیا فرق پڑتا ہے ہم ٹھیک جا رہے ہیں۔

لیکن اس نے باور کرایا کہ بھائی یہ اہستہ اہستہ وہاں بھی گھیرا ڈالتے جائیں گے اور تمہارے حج کے راستے بھی بند کر دیں گے اور اج کے دور میں یہ عنقریب ہونے والا ہے اس نے سمجھایا کہ بھائی خالی عبادت کرنا نہیں اسلامی نظام بھی قائم کرنا ہے ۔
تو اج بھی اس بات کی ضرورت ہے کہ ہم ہر سطح پہ فلسطین کے مسلمانوں کا پیغام پوری دنیا میں پہنچائیں اس کا مقابلہ کریں اج سوشل میڈیا پہ مین میڈیا پہ ہر جگہ پہ کنٹرول کیا جا رہا ہے ۔ اور کوشش کی جا رہی ہے کہ فلسطینی مسلمانوں پر ڈھائے جانے والے مظالم کے بارے میں دنیا کو کم سے کم پتہ لگ پائے ۔

تو ہمیں ہر قسم کے کے میڈیم کو استعمال کرنا چاہیے چاہے وہ ڈرامے ہوں فلمیں ہوں یوٹیوب ہو فیس بک ہو ٹوٹر ہو یقین کریں اج ہر قسم کی جنگ سب سے زیادہ میڈیا کے اوپر ہی لڑی جا رہی ہے پاکستان میں پاکستانی نوجوانوں نے سوشل میڈیا کا استعمال کرتے ہوئے طاقتور اسٹیبلشمنٹ کو گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کر دیا ۔

اب بھی پوری دنیا کے مسلمان جہاں جہاں سوشل میڈیا پہ اور مین میڈیا پہ فلسطین کا مقدمہ لڑ رہے ہیں جس میں سب سے توانا اواز ڈاکٹر عمر سلیمان کی ہے ان سب کو خراج تحسین پیش کرنا چاہیے اور ہمیں یہ جاری رکھنا چاہیے کیونکہ اب اہستہ اہستہ پوری دنیا سے فلسطین کے حق میں اوازیں اٹھ رہی ہیں اور اگر اپ یہ پریشر بڑھاتے رہے تو اسرائیل مجبور ہو جائے گا اس جنگ کو روکنے پہ اور فلسطینیوں کے حقوق کو ماننے پہ۔

اور اس خطے میں بسنے والے دو تین مسلمان ممالک بھی مل جائیں اور اپنی اناؤں کو سائیڈ پہ رکھ دیں تو ہم اسرائیل کو معاشی اور جنگی دونوں میدانوں میں بہت بڑا جھٹکا دے سکتے ہیں ۔ اور اس مقصد کے لیے ہمیں اج اپنے ان لیڈروں کو پہچانا پڑے گا جو بے خوف ایماندار ہیں بین الاقوامی سیاست کو سمجھتے ہیں اس کے لیے ہمیں دیکھنا پڑے گا کہ کون لوگ ہیں اور ان کو ہمیں فالو کرنا ہوگا ان پہ یقین کرنا ہوگا ان کا ساتھ دینا ہوگا ۔

ہم مسلمانوں کی تاریخ رہی ہے جس میں ہم لوگ ہمیشہ یہی کہتے ہیں کہ ہم لیڈر لیس لو گ رہے ہیں ہمارے پاس لیڈر اچھا نہیں ہے بدقسمتی یہ ہے کہ جب کوئی لیڈر اتا بھی ہے تو ہم پہچانتے ہی نہیں ہیں اب اج کے دور میں عمران خان صاحب وہ واحد شخصیت تھے جنہوں نے اسلامی کاز کا پیغمبر کی ناموس کا فلسطین کا کشمیر کے مسلمانوں کا مقدمہ یو این او میں لڑا ہر جگہ پہ لڑا مگر ہمارے ملک کے میر جعفروں اور میر صادقوں نے ان کو منظر عام سے ہٹا دیا۔ اور ہمیشہ کی طرح امریکہ اس کے پیچھے تھا

یہاں پہ یہ سوال اٹھتا ہے کہ 1967 میں ایسا کیوں نہیں ہو پایا جب تین چار عرب ممالک نے مل کر اسرائیل پر اٹیک کر دیا تھا ۔ تو اس کی کئی وجوہات تھیں اس اٹیک میں مصر بھی شامل تھا شام تھا اردن تھا اور اس اٹیک کے دوران پیچھے سے قطر کی بھی سپورٹ تھی سعودیہ کی بھی سپورٹ تھی اور اس اٹیک کے دوران پہلے حملے میں ہی غذا کے اوپر مسلمانوں نے جھنڈا لہرا دیا تھا لیکن اس کے بعد ہمیشہ کی طرح ان مسلمان ممالک کے بونے حکمران اور چھوٹے قد کے بادشاہ اپس میں حصے بانٹنے کے لیے لڑنے لگ گئے اسرائیل بھی حیران تھا کہ یہ پیش قدمی کیوں نہیں کر رہے اور انہوں نے موقع دیا اسرائیل کو تازہ دم ہونے کا اور اپس کی لڑائی سے اسے موقع دیا کہ وہ پھر سے ان کو دھکیل دے اتنی دیر میں امریکہ بھی جنگ میں کود پڑا تھا نہ صرف یہ کہ اس پہلے حملے میں فتح کے بعد یہ اپس میں لڑنے لگ گئے بلکہ اس کے بعد کنگ اف جارڈن کو اسرائیل نے پیسوں کی اور علاقوں کی افر شروع کر دی جو اس نے اخر کار مان لیا ۔ اس طرح اپس کی ذاتی رنجشوں اور چھوٹی چھوٹی اناؤں کی وجہ سے چھوٹے چھوٹے مقاصد لیے یہ پسپا ہو گئے اور فلسطینیوں کو انہوں نے نہ ختم ہونے والی جنگ میں دھکیل دیا۔ اس وقت پاکستان سے گئے ہوئے ہمارے ضیا صاحب جنرل ضیاء الحق اردن کی حفاظت پر مامور تھے فلسطینیوں کے خلاف اسرائیلیوں کے ساتھ یو این او کی طرف سے.

تو مسلمانوں کی بدقسمتی ہی یہی ہے کہ یہاں پہ کوئی بھی خالص طور پہ خود مسلمانوں کے لیے اور اپنے ملک کے لیے کام نہیں کر رہا کہیں پہ فوج اور حکومت کے درمیان تقسیم ہے کہیں پہ خود ایسی تنظیموں میں جو اسرائیل کے خلاف لڑ رہی ہیں ان میں بھی تقسیم ہے جیسے حماس اور پی ائی جے ۔ جیسے حماس اور فتح جو ویسٹ بینک میں ہے ان کے درمیان بھی تقسیم ہے۔ جس طرح عرب اور عجم یعنی ساری عرب ریاستیں اور ایران ان کے درمیان بھی تقسیم ہے تو اس تقسیم کو استعمال کرتے ہوئے یورپی ممالک امریکہ اسرائیل اور انڈیا ہر جگہ اپنی ڈیپ پاکٹس بنانے میں کامیاب ہوتے گئے اج بھی وہ اسی رول بک کو فالو کرتے ہیں اور اسی ڈیوائڈ اینڈ رول کی بنا پہ ہم مسلمان مسلسل پس رہے ہیں اور اس کا سب سےبڑا شکار عام سویلینز ہوتے ہیں جس میں سب سے زیادہ ظلم پوری دنیا میں فلسطینیوں پہ ہو رہا ہے۔

کیا یہ مذہبی جنگ ہے؟

شیخ عمر سلیمان سے پوچھا گیا کہ یہ اپ کو کیا لگتا ہے کہ یہ جو اسرائیل اور فلسطین کا مسئلہ ہے یہ مذہبی جنگ ہے یا کیا ہے انہوں نے بڑا اچھا جواب دیا کہ یہ مذہبی جنگ نہیں ہے یہ اصل میں اخری سامراجی طاقت کو قائم رکھنے کے لیے ایک پراکسی کی جنگ ہے یعنی امریکہ کی طرف سے اسرائیل کو وہاں پہ پلانٹڈ رکھا گیا ہے جس کو پلانٹ کیا برطانیہ نے لیکن وہ اس وقت کی سپر پاور تھی جب امریکہ سپر پاور بنا تو اس نے یہاں پہ مڈل ایسٹ میں اور باقی خطے میں اپنی سامراج کو برقرار رکھنے کے لیے اپنے قبضے کو برقرار رکھنے کے لیے اسرائیل کو استعمال کیا.

اور اگر یہ مذہبی جنگ ہے تو تقریبا ایک لاکھ سے زیادہ یہودی مسلم دنیا میں رہ رہے ہیں جو کہ 14 ممالک میں پھیلے ہوئے ہیں اور اس کے علاوہ بہت سے مسلم ممالک ان کو اپنی عبادت گاہیں بنانے کی اجازت بھی دیتے ہیں اور وہاں ان کے بزنسز بھی ترقی کرتے ہیں ان کے ساتھ تو کوئی ایسا سلوک نہیں کیا جاتا جو اسرائیل مسلمانوں کے ساتھ کرتا ہے تو اس کا مطلب ہے کہ یہ مذہبی جنگ نہیں ہے ان ممالک میں موروکو اذربائجان یو اے ای بحرین سوڈان ٹرکی اور خود ایران بھی شامل ہے۔

اور اس کو جنگ کہنا تو ایک غلطی ہوگی کیونکہ ایک سائیڈ پوری طرح سے قتل عام کر رہی ہے اور دوسری سائیڈ وکٹم ہے ایک اسرائیلی کے بدلے 20 فلسطینی شہید کیے جاتے ہیں بچوں کی تخصیص کے بغیر چھوٹے چھوٹے بچے ماؤں کے پیٹ میں پلنے والے بچے۔ کچھ بچے جو شدید زخمی ہیں اپنے ماں باپ سے بچھڑ چکے ہیں ان کے ماں باپ مر چکے ہیں وہ بچے اپنے ماں باپ کے لیے پکارتے ہیں روتے ہیں گڑگڑاتے ہیں اور کچھ ماں باپ جن کے بچے جن کے بچوں کی کٹی ہوئی جلی ہوئی لاشیں ان کے سامنے چھ ماہ کے۔ نئے پیدا ہونے والے بچے تین سال کے چار سال کے۔

اور اب یہ خونخوار بھیڑیا نیتن یاہو رفا پر بھی حملہ کرنے جا رہا ہے اور اس نے وہاں کی ابادی کو الٹیمیٹم دیا ہے کہ چند دنوں کے اندر اندر وہ اس جگہ کو خالی کر دیں لیکن اس کا اصل مقصد یہی ہے کہ وہ اب رفاع میں بھی قتل عام کرے گا دنیا تماشہ دیکھے گی مسلمان حکمران اپنی عیاشیوں اپنے جھوٹے اور چھوٹے چھوٹے مقاصد میں ہی پھنسے رہیں گے یہ کار ریسنگ اونٹوں کی دوڑ اور فیفا ورلڈ کپ کے اندر ہی مصروف رہیں گے.

اسرائیل ایک دہشت گرد۔

اسرائیل اپنے اپ کو ایک سویلائز حکومت اور حماس کو وحشیوں کی طرح پیش کرتا ہے اور یہ تاثر دیتا ہے کہ جیسے سات اکتوبر کا حملہ اچانک کیا گیا اور اس کے پیچھے کیے جانے والے مظالم کی لمبی داستان کو یکسر فراموش کر دیتا ہے جو بیل فور ڈیکلریشن کے ساتھ ہی شروع ہوئیں اور اج تک جاری ہے1915 میں بیل فار ڈیکلریشن کے فورا بعد جب برطانیہ نے یہودیوں کو فلسطین میں منتقل کرنا شروع کیا تو اس وقت بھی بے تحاشہ فلسطینی مسلمانوں کو بے دردی سے قتل کیا گیا اپنی زمینوں سے بے دخل کیا گیا اس وقت تو کوئی حماس نہیں تھی نہ ہی کوئی میزائل برسائے جاتے تھے اسرائیلیوں کے اوپر۔

دوسری طرف امریکہ کا یہ حال ہے کہ وہ مسلسل اسرائیل کےاس وحشیانہ جنگی جرائم کا ساتھ دے رہی ہے اور اس کو مسلسل اسلحہ اور پیسہ فراہم کر رہی ہے ایسا کیسے ہو گیا کہ یکا یک چار سو کانگرس مین دونوں پارٹیوں سے ڈیموکریٹک سے بھی ریپبلک سے بھی انہوں نے اسرائیل کو امداد دینے کا فیصلہ جاری رکھا تو چاہے ریپبلیکن ہو یا ڈیموکریٹک دونوں کا یہی فیصلہ ہے کہ فلسطینی انسان نہیں ہے اور ان کے کوئی ایکول رائٹس نہیں ہیں اچھا۔ تو اسرائیل امریکہ برطانیہ اس کا سات دینے والے دوسرے ممالک اور انڈیا بھی فلسطینی بچوں کا قاتل ہے کیونکہ انڈیا اسرائیل کو جنگی ڈرون مہیا کرنے والا سب سے بڑا ملک ہے۔

اسرائیل نے امریکہ اور دیگر اقوام کے ساتھ مل کے اس بات کو یقینی بنایا ہے کہ ایک طرف تو فلسطینیوں کی نسل کشی جاری رہے اور دوسری طرف اس بات پہ اواز بھی نہ اٹھائی جائے یعنی اگر وہ یہ چاہتے ہیں کہ فلسطینی مسلمان ہتھیار نہ اٹھائیں تو کم از کم ان کو یہ تو چاہیے کہ ان کے بارے میں بات کی جائے لیکن جو بھی کوئی پوری بین الاقوامی میڈیا پہ فلسطینی عوام کے حقوق تک کی بھی بات کرے بیسک ہیومن رائٹس کی بھی بات کرےتو اس کو یہودیت کے خلاف قرار دے دیا جاتا ہے تو اخر کار وہ چاہتے کیا ہیں اج پوری دنیا کے میڈیا پہ چاہے وہ بین الاقوامی ڈیجیٹل میڈیا ہو سوشل میڈیا پلیٹ فارم ہو یوٹیوب ہو ٹویٹر ہو فیس بک ہو اس بات کو یقینی بنایا جاتا ہے کہ فلسطینی عوام اور ان پہ ڈھائے جانے والے مظالم اور ان کی صورتحال ان کی غربت کی تصاویر اور بیانات کو نیچے سے نیچے کیا جائے ان کی ریچ کو کم کیا جائے یورپی ممالک میں امریکہ میں بسنے والے لوگوں کو صحیح تصویر بھی نہیں دکھائی جاتی نہ بتائی جاتی اس لیے بہت ضروری ہے کہ ہر سطح پہ اس پروپیگنڈے کا مقابلہ کیا جائے امریکہ اج طالبان سے مسلسل مار کھانے کے باوجود بھی ان سے مذاکرات کر رہا ہے ان کی حیثیت کو مان رہا ہے تو پھر یہ لوگ حماس سے بات کیوں نہیں کر سکتے فلسطین میں پائے جانے والی دیگر جماعتوں کے ساتھ ساتھ حماس سے بات کیوں نہیں کی جا سکتی اور اگر حماس وحشی جماعت ہے تو اسرائیلی ائی ڈی ایف یعنی اسرائیل ڈیفنس فورسز جو ایک اسرائیلی فوجی کے بدلے 20 سے 25 فلسطینی عام مسلمانوں کو شہید کرتے ہیں ان کو کیا کہا جائے گا ان کے عمل کو اپ کیا کہیں گے کیا یہ اصل وحشی پن نہیں ہے جنگ کے بھی اصول ہیں جو خود ان یورپی اقوام نے وضع کیے ہیں اقوام متحدہ کے پلیٹ فارم سے یہ اصول بتائے گئے کہ سکولوں ہسپتالوں کو نشانہ نہیں بنایا جائے گا سویلینز کو نشانہ نہیں بنایا جائے گا پوری کوشش کی جائے گی کہ ایسا نہ ہو لیکن اس کو کولیٹرل ڈیمج کا نام دیا جاتا ہے تو جب اپ یہ گولیٹر ڈیمج کریں گے تو اصل وحشی تو پھر اپ ہی ٹھہرائے جائیں گے۔

Rooman Ali Syed
About the Author: Rooman Ali Syed Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.