عالمی تعلیمی روابط کو فروغ دینے میں چین کا نمایاں کردار

اس وقت مختلف چینی جامعات میں زیرتعلیم پاکستانی طلباء کی تعداد اٹھائیس ہزار سے زائد ہے جو زراعت ، سائنس و ٹیکنالوجی سمیت دیگر شعبہ جات میں اعلیٰ تعلیم حاصل کر رہے ہیں۔حالیہ عرصے میں چین نے نہ صرف پاکستانی طلباء بلکہ دنیا بھر سے آنے والے نوجوان طلباء کا خیر مقدم کیا ہے اور انہیں وظائف اور اعلیٰ تعلیم کی فراہمی سے مستفید کیا ہے۔یہ کہا جا سکتا ہے کہ اس وقت چین بیرونی طلباء کے لیے پرکشش منزل بن چکا ہے جہاں گزرتے وقت کے ساتھ بین الاقوامی طلباء کی موجودگی کا تناسب بڑھتا چلا جا رہا ہے۔
 
گلوبلائزیشن کے عظیم بیانیے میں، گزشتہ چار دہائیوں سے زائد عرصے سے چین کی اصلاحات اور کھلے پن کی اقتصادی پالیسی ایک بنیادی موضوع رہی ہے، کیونکہ ملک نے تجارت اور سرمایہ کاری کو زبردست فروغ دینے کے علاوہ سرحدوں کے آر پار لوگوں کے بہاؤ میں اضافہ کیا ہے، جو عالمی باہمی رابطے کے جوہر کی علامت ہے۔اسی باعث ایک دہائی سے زائد عرصے سے چین کے معروف تعلیمی مقامات بیرونی طالب علموں کی نمایاں تعداد کے حامل رہے ہیں، جو چینی ثقافت میں تعلیم کی اہمیت، خاص طور پر تعلیمی مہارت کی عکاسی کرتا ہے اور چینی عوام کو گلوبلائزڈ مستقبل کے لیے تیار کر رہا ہے۔

یہ تو ہو گئی بیرونی طلباء کی چین میں موجودگی کی بات ،اب اگر چینی طلباء کی بیرون ملک نمائندگی کا تذکرہ کیا جائے تو چین یہاں دنیا میں سرفہرست ہے۔سینٹر فار چائنا اینڈ گلوبلائزیشن کی تازہ ترین رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ 2021 میں دس لاکھ سے زائد چینی طالب علم بیرون ملک تعلیم حاصل کر رہے تھے، جو دنیا میں غیر ملکی طالب علموں کے سب سے بڑے ذریعہ کے طور پر چین کی حیثیت کو اجاگر کرتا ہے۔ 2022تا 23کے تعلیمی سال کے دوران بھی ، چین بین الاقوامی طلباء کا سب سے بڑا ذریعہ رہا ، جس میں بین الاقوامی طلباء کے لئے معروف مقامات میں چینی طلباء کی نمایاں موجودگی ہے۔ مثال کے طور پر امریکہ میں رواں سال ، چین غیر ملکی طالب علموں کا سب سے بڑا ذریعہ ہے، جس میں تقریباً دو لاکھ نواسی ہزار طالب علم ہیں۔چین اس حوالے سے مسلسل 15 سال سے پہلی پوزیشن برقرار رکھے ہوئے ہے ۔ آسٹریلیا میں بھی چین ، 2022تا 23 میں بین الاقوامی طالب علموں کا بنیادی ذریعہ ہے اور یہاں چینی طلباء کی تعداد تقریباً 162826 ہے۔ برطانیہ میں چینی طالب علموں کی تعداد میں مسلسل اضافہ دیکھا گیا ، تعلیمی سال 2022تا 23میں ان کی تعداد 158335 تک پہنچ گئی ،جرمنی میں تقریباً 40 ہزار اور فرانس میں 29 ہزار چینی طلباء زیرتعلیم ہیں۔اسی طرح جاپان میں بھی چینی طالب علموں کی ایک بڑی تعداد ہے جو تقریبا 103000 ہے، جو دیگر تمام ممالک میں سب سے زیادہ ہے۔

سینٹر فار چائنا اینڈ گلوبلائزیشن کی اس رپورٹ میں چینی طالب علموں کے لئے تعلیمی مقامات کی متحرک توسیع پر بھی روشنی ڈالی گئی ہے۔ آج ،بیرون ملک اعلیٰ تعلیم کے بارے میں معلومات تیزی سے واضح ہوتی جارہی ہیں ، طلباء اب کم شناسا تعلیمی مقامات میں تعلیم حاصل کرنے کا انتخاب بھی کرسکتے ہیں۔ اس تبدیلی کی وجہ سے روایتی مغربی ممالک میں ہی حصول تعلیم تک محدود رہنے کا رجحان کمزور ہو رہا ہے اور تعلیمی مقامات میں تنوع پیدا ہوا ہے۔
تاریخی طور پر چینی طالب علموں نے امریکہ، برطانیہ، آسٹریلیا، کینیڈا اور جاپان جیسے ترقی یافتہ ممالک کو غیر ملکی تعلیم کے لیے ترجیح دی ہے۔ تاہم،دیگر ممالک اور خطوں کی بڑھتی ہوئی تعداد بھی چینی طالب علموں کے لئے پرکشش ہوتی جا رہی ہے.جرمنی اور نیوزی لینڈ، جو اپنے بہترین تعلیمی اداروں اور سستے معیار زندگی کے لئے جانے جاتے ہیں، چینی طالب علموں کے لئے تیزی سے پرکشش تعلیمی مقامات بن گئے ہیں.مزید برآں، جنوب مشرقی ایشیا (سنگاپور، ملائیشیا اور تھائی لینڈ) اور یورپ (روس، بیلاروس، اٹلی، یوکرین، آئرلینڈ، اسپین، سویڈن اور سوئٹزرلینڈ) میں ابھرتے ہوئے غیر ملکی تعلیمی مقامات نے چینی طالب علموں کے لئے سرفہرست 20 غیر ملکی تعلیمی مقامات کی فہرست میں جگہ بنائی ہے. یہاں تعلیمی ادارے ہزاروں چینی طالب علموں کی میزبانی کر رہے ہیں۔ترکی، فن لینڈ، ڈنمارک اور پولینڈ جیسے دیگر ممالک بھی کثیر چینی طلباء کی میزبانی کر رہے ہیں، جبکہ مشرق وسطی کے ممالک جیسے سعودی عرب اور ایران، اور ارجنٹائن اور برازیل جیسے جنوبی امریکی ممالک بھی سینکڑوں چینی طلباء موجود ہیں۔یوں ،چینی طلباء چین اور دیگر ممالک کے درمیان رابطہ کاری کا ایک ستون ثابت ہو رہے ہیں۔اس سے ایک جانب جہاں تعلیمی نظام کی بین الاقوامیت کو فروغ مل رہا ہے وہاں افرادی روابط سے ہم آہنگی کے جذبات بھی پروان چڑھ رہے ہیں۔

Shahid Afraz Khan
About the Author: Shahid Afraz Khan Read More Articles by Shahid Afraz Khan: 1155 Articles with 444982 views Working as a Broadcast Journalist with China Media Group , Beijing .. View More