سانپوں کا شکاری ہر دشمن پہ بھاری ISI

مارخور سانپوں کو ڈھونڈتے اور مارتے مارتے زخمی ضرور ہو جاتا ہے۔ لیکن اپنی آخری سانس تک ہار نہیں مانتا۔ یہی وہ بہادری اور شجاعت ہے۔ جسکی وجہ سے تمام سانپ جو آپ پر اب تک عیاں ہوچکے ہیں۔ انکا نشانہ مارخور پر ہے۔ سماجی تنظیمیں ، سیاستدان ، لسانیت و قومیت کے داعی ، صحافی و اینکرز اور ملحدین ، گستاخانہ پیجز چلانے والے اور ہم جنس پرست یہ وہ لوگ ہیں۔ جو بچھوؤں کا کردار ادا کرتے ہوئے اپنے ہی گھر کے محافظ مارخوروں کو ڈسنے کی کوشش کر رہے ہیں اور اس میں کافی حد تک کامیاب بھی ہوئے ہیں۔ لیکن یہ ہماری خواص نظروں سے اْوجھل نہیں ہیں اور نہ ہو سکتے ہیں۔ دوسری طرف یہود (اسرائیل) و نصاری (امریکہ) اور مشرکین ( بھارت) وہ کوبرا سانپ کا گْچھا ہیں۔ جو مارخور ISI پر اپنے جان لیوا زہر کے ساتھ حملہ آور ہیں۔ لیکن مارخور تو ہار ماننے کو تیار نہیں ہیں۔ کٹھن حالات میں بھی مارخور پریشان نہیں ہوتا۔ بلکہ تاریک راہوں اور دشوار منزلوں میں بھی اسکی جفاکشی اور دلیری دشمن پر سکتہ طاری کرنے کے لئے کافی ہوتی ہے۔ ہزاروں سانپوں کے ہوتے ہوئے بھی مارخور ISI انکو دبوچ لیتے ہیں۔ مارخور کے لئے کوء چیز ناممکن نہیں اور یہی وہ یقین ہے۔ وہ ایمان ہے اور اللّہ سبحانہ وتعالیٰ پر توکل ہے کہ جسکی وجہ سے ہمیشہ مارخور سانپوں پر بازی لے جاتے ہیں۔ سی آئی اے ، بلیک واٹر ، موساد اور را کے سانپوں کی نسبت اندرونی بچھو ، مارخور اور اسکے گھر والوں کے لئے زیادہ مہلک ہیں۔ جو اسکے گھر میں موجود ہو کر سب کو ڈس رہے ہیں۔ مارخور کا ٹاکرا سانپوں اور بچھووں سے ایک طویل عرصے سے جاری ہے۔ بے شمار زخم اور خون گرنے کے باوجود مارخور سانپوں کے قابو میں نہیں آرہا ، نہ ڈر رہا ہے ، نہ تھک کر ہار مان رہا ہے ، نہ نا اْمید ہو رہا ہے۔ بلکہ ہر دن اسکا نئے محاذ پر سانپوں سے سامنا ہوتا ہے۔ جسکا وہ جان ہتھیلی پر رکھ کر مقابلہ کر رہے ہیں۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ حق و باطل کی اس جنگ میں فتح کا تاج کس کے سر سجتا ہے۔ اﷲ سبحانہ و تعالی کے حکم کے مطابق فتح ہمیشہ مارخور کی ہی ہوگی۔ ان شاء اﷲ تعالٰی۔ اب بس یہ دیکھنا باقی ہے کہ کون اپنے وطن کے لیے کھڑا ہوتا ہے اور کون غدارانِ وطن میں نام لکھواتا ہے۔ کون مارخور کا ساتھ دیتا ہے۔ کون سانپوں اور بچھووں کے ساتھ کھڑا ہوتا ہے۔
ترجمعہ( ہم خدا پر یقین رکھتے ہیں۔ اسکے علاوہ ہم سب کی نگرانی کرتے ہیں۔)( آفس آف نیول انٹیلیجنس آف امریکا )

یہ امریکن نیول انٹیلیجنس کا نصب العین اور اصولِ عمل (Motto) ہے کہ ہم خدا پر یقین رکھتے ہیں۔ اسکے علاوہ ہم کسی پر بھروسہ نہیں کرتے اور سب کی نگرانی کرتے ہیں۔ یعنی پوری دنیا میں کہیں بھی کوئی بھی ، مَیں بھی آپ بھی اور ہم سب کی نگرانی امریکی بحریہ کی انٹیلیجنس ایجنسی کر سکتی ہے اور امریکی ادارے ایسا کرتے بھی ہیں۔ دنیا بھر کا کوئی انسان بھی جس پر انہیں بھروسہ نہ ہو وہ اسکی نگرانی کرتے ہیں یہ ان کا نصب العین ہے۔اصل بات یہ کہ سرد جنگ کے آغاز کے ساتھ ہی دنیا کی مختلف اقوام اپنے اپنے مقاصد اور مفادات کی تکمیل کے لیے انٹیلیجنس ایجنسیز کے ذریعے مخالف ممالک کے رازوں کی چوری اور نگرانی کرتی آ رہی ہیں۔ ایجنسیوں کی زبان میں دو معروف طریقے رائج ہیں اس کام کے لیے ایک( infiltration ) دوسرا ( penetration )۔ پینیٹریشن ، انفلٹریشن سے زیادہ تباہ کن طریقہ ہوتا ہے۔ کیونکہ اس میں اندر کا آدمی ملوث ہوتا ہے۔ وقت نے کروٹ بدلی اور دنیا ٹیکنالوجی کے میدان میں آگے بڑھنے لگی۔ تو امریکہ نے اس میدان میں بھی پنجے گاڑ دیئے اور انٹرنیٹ مانیٹرنگ کے لیے وہی اصول اپنایا جو اْوپر لکھا ہے یعنی کسی بھی ملک کی خودمختاری کو پامال کرتے ہوئے اس ملک کے رازوں کی چوری اور نگرانی ، نہ صرف ملکی رازوں کی بلکہ اقوام اور افراد کی نگرانی اور بوقتِ ضرورت انکے ذاتی ڈیٹا کی چوری بھی شامل ہے۔ آپکو یاد ہو گا۔ وکی لیکس میں انکشاف کیا گیا تھا کہ امریکہ اور برطانیہ سمیت کئی ممالک ہمارا آن لائن ڈیٹا چوری کرتے رہے ہیں۔ سو جوابی کاروائی ہمارا حق بنتا تھا۔ لہٰذا ISI نے جوابی کاروائی کی اور ہمارے نامعلوم جنات نے انٹرنیٹ مانیٹرنگ میں امریکہ سمیت برطانیہ ، انڈیا اور ساؤتھ ایسٹ ایشیاء کے کئی بڑے بڑے ممالک کو اتنا تگڑا ہاتھ مارا کہ وہ بلبلا اٹھے۔ یہ کاروائی اتنی صفائی سے کی گئی تھی کہ تمام تر شور مچانے کے باوجود امریکہ ، برطانیہ وغیرہ کوئی ثبوت پیش نہ کر سکے اور آج تک صرف رْولا ہی ڈال رہے ہیں۔ آئی ایس آئی نے کیا یہ کہ 2013 میں mass surveillance system ( عالمی پیمانے پر جاسوسی کا نظام ) کے لیے آلات حاصل کیئے۔ آلات یورپ کی کمپنیز سے حاصل کیے گئے۔ اگر ڈائریکٹ پاکستان وہ آلات خریدتا تو سی آئی اے سمیت کئی ایجنسیوں کو خبر ہو جاتی۔ اس لیے تیکنیکی آلات کے سوداگروں ، چھوٹی چھوٹی ٹیکنالوجی فرمز اور مختلف اداروں کو ھائیر کیا گیا اور مختلف ہاتھوں سے گزرتے گزرتے وہ آلات آئی ایس آئی تک پہنچے۔ اگلہ مرحلہ اِن آلات کا استعمال تھا۔ کراچی کے سمندر میں بین الاقوامی انٹرنیٹ کیبلز گزر رہی ہیں۔ جن سے امریکہ اور انڈیا سمیت دنیا کے کئی بڑے ممالک کی انٹرنیٹ ٹریفکنگ ہوتی ہے۔ ان کیبلز کے ساتھ ٹیکنیکل چھیڑ خانی کی گئی اور متعلقہ آلات وہاں پر فکس کر دئے گئے۔ کچھ آلات لینڈنگ سائیٹس (وہ جگہ جہاں سے انٹرنیٹ کیبلز زمین سے سمندر میں اترتی ہیں) پر فکس ہوئے اور کچھ زیر سمندر کیبلز کے مخصوص حصوں پر۔ جولائی 2015 میں اس بات کا انکشاف ہوا کہ آئی ایس آئی کا ٹیکنکل ونگ مذکورہ بالا ممالک سمیت دنیا کے کئی ممالک کا ڈیٹا جس میں خفیہ اور حساس معلومات بھی شامل تھی لے اڑا ہے۔ سب سے پہلے برطانیہ نے اس پر شور مچایا اور پھر باقی ممالک نے بھی اس پر دہائی دینا شروع کر دی۔ کاروائی اتنی صفائی سے ڈالی گئی تھی کہ ثبوت ہاتھ لگنے کا ایک فیصد چانس بھی نہ تھا۔ کیوں کہ لینڈنگ سائیٹس پر فکس آلات کو بوقت ضرورت اتار کر غائب کر لیا جاتا اور زیرِ سمندر کیبل کو چپہ چپہ چیک کرنا کسی مائی کے لال کے بس کی بات نہیں تھی۔ زیادہ سے زیادہ اعتراض پر پاکستان آرام سے یہ کہہ دیتا کہ ٹھیک ہے۔ پھر اپنی کیبلز ہمارے سمندر سے اٹھا کر خلا میں لے جاؤ ہم پر بھروسہ نہیں ہے تو۔ صرف یہی نہیں بلکہ انٹرنیٹ پرائیویسی کے برطانوی ماہرین نے رپورٹ دی تھی کہ اس واقعہ کے بعد پاکستان کا شمار ان طاقتور ترین ملکوں کی صف میں کیا جائے گا کہ جو انٹرنیٹ ڈیٹا پر سب سے کڑی نگاہ رکھتے ہیں اور ISI کے سرویلیئنس نظام (نگرانی کے نظام) کو دنیا کے طاقتور ترین سرویلیئن نظاموں کے مقابلے کا قرار دیا گیا۔ جن میں امریکہ اور برطانیہ کے نظام بھی شامل تھے۔ پرائیویسی انٹرنشنل نے اسے دنیا کے حالات پر ہر وقت کڑی نظر رکھنے کے مترادف قرار دیا اور پھر مغربی میڈیا نے اس معاملے پر ISI کے خلاف خوب پراپگینڈہ کیا کہ یہ انسانی حقوق کی خلاف ورزی ہے۔ مزید مزے کی بات یہ ہے کہ اس پر کام 2013 سے بھی قبل مختلف انداز میں ہو رہا تھا۔ برطانیہ کو خبر البتہ دیر سے ہوئی کہ پاکستانی تو ہاتھ کر گئے ہیں۔ پرائیویسی انٹرنیشل کی رپورٹ میں کہا گیا تھا۔ رپورٹ منظرِ عام پر اب آئی ہے جبکہ ISI یہ کام بہت پہلے سے کر رہی ہے۔ عالمی سطح پر جس انداز میں ISI کی کامیابیوں کو میڈیا اور این جی اوز کے زریعے متنازعہ بنایا جاتا ہے۔ اس سے یہی تاثر ملتا ہے کہ ہماری خفیہ ایجنسی کے کارنامے بڑی طاقتوں کی آنکھ میں کانٹے کی طرح چبھتے ہیں۔ نہیں تو خدا کے علاوہ ہر مخلوق کی نگرانی کے دعویدار امریکہ کو اتنی تکلیف نہ ہوتی۔ خود امریکہ نے 1970ء میں سمندری رابطہ کاری کو جاسوسی کے لیے استعمال کیا۔ لیکن ہم نے یہ کام کیا تو اسے تکلیف ہونے لگی۔ ایک بات اٹل ہے کہ ہر پراپگینڈہ کے بعد ہمیں یہ یقین ہونا چاہیے کہ ایک ترقی پذیر ملک کی خفیہ ایجنسی عالمی سطح پر بڑی طاقتوں کی خفیہ ایجنسیوں کو لوہے کے چنے چبانے پر مجبور کر رہی ہے الحمد اﷲ۔خدا کے علاوہ سب کی نگرانی کرنے کے دعویدار امریکہ کی ناک کے نیچے ISI زیرِ سمندر کیبلز کے ذریعے امریکہ کی نگرانی آج بھی کر رہی ہے اور وہ صرف دیکھنے اور شور کرنے کے علاوہ کچھ بھی نہ کر سکا۔ خدا میرے شیر جوانوں ISI کے شاھینوں کا حامی و ناصر ہو۔ آمین۔بشکریہ سی سی پی۔
آئی ایس آئی زندہ آباد
پاک افواج زندہ آباد
پاکستان پائندہ آباد

 

Mehr Ishtiaq
About the Author: Mehr Ishtiaq Read More Articles by Mehr Ishtiaq: 32 Articles with 22176 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.