بیماری باعث خیر

معرفت ِ رب: بیماری تو صابن کی طرح ہے، یہ مریض کے روحانی میل کچیل کو دور کرتی ہے اور خطاؤں سے معافی کا ذریعہ بنتی ہے۔ حدیث میں ہے کہ جب بھی کوئی مسلمان کسی تکلیف یا مرض میں مبتلا ہوتا ہے تو اس کے گناہ ایسے جھڑتے ہیں جیسے درختوں کے پتے جھڑتے ہیں۔(صحیح بخاری)

اے مریض پریشان نہ ہو، صبر کرو۔ آپ کی بیماری آپ کے لئے نقصان دہ نہیں بلکہ دراصل ایک دوا ہے۔ اس لئےکہ زندگی، سرمائے کی مانند ہے، اگر اس سے نفع حاصل نہ ہو تو پوری زندگی اکارت جانے کے مترادف ہے، خصوصاً جب زندگی آرام اور غفلت کے ساتھ گزرے اور اپنے انجام کی طرف تیزی سے بڑھتی رہے۔ بیماری زندگی کی حقیقی قدر وقیمت کا احساس دلاتی ہے۔ دورانِ علالت یوں محسوس ہوتا ہے جیسے تیزی سے گزرنے والے لمحات رک گئے ہوں، وقت تھم گیا ہو، بلکہ بیماری اور تکلیف کے باعث وقت کٹتا ہی نہیں۔ تکلیف کے یہ طویل لمحات جو زندگی کی رفتار کو سست کردیتے ہیں، کسی نعمت سے کم نہیں۔ یہ گزری ہوئی زندگی پر ٹھہر کر سوچنے کا موقع دیتے ہیں۔ یہ غور و فکر، ذاتی احتساب اور جائزہ زندگی کے سرمائے کی حقیقی قدر کو اجاگر کرتا ہے اور انسان آئندہ بہتر زندگی گزارنے پر سنجیدگی سے غور کرتا ہے۔ علالت کے یہ طویل لمحات زندگی کی قدر کا باعث بنتے ہیں اور صحت یاب ہونے کے بعد ٹھہری ہوئی زندگی ایک بار پھر پوری قوت سے صحیح سمت میں دوڑنے لگتی ہے۔ لہٰذا بیماری کو صبر و حوصلے سے کاٹنا چاہئے، یہ بھی باعث خیر ہے، یقیناً مومن ہر حال میں خیر ہی سمیٹتا ہے۔

lصبر پر بیش بہا اجر: اے انتہائی صبر کرنے والے مریض! صبر کا زیور پہنے رہو، بلکہ شکر کرکے اپنے آپ کو اس کی زینت سے مزین کرو۔ ممکن ہے کہ آپ کی زندگی کے یہ مختصر لمحے طویل عبادت میں بدل جائیں۔ اس لئے کہ عبادت کی دو قسمیں ہیں: ایک وہ عبادت ہے جس میں اعضاء کے ساتھ اللہ تعالیٰ کے سامنے اپنی عاجزی کا اظہار کیا جاتا ہے، جیسے نماز، دعا وغیرہ۔ دوسری وہ عبادت ہے جس کا تعلق دل سے ہوتا ہے۔ اس میں مصیبت زدہ شخص دل ہی دل میں اپنے رب کے سامنے اپنی بندگی و عاجزی کا اقرار کرتا ہے اور اسی سے مدد کا طالب ہوتا ہے۔ وہ اپنی بیماری اور مصائب کے دنوں میں احساس و شعور کی گہرائی کے ساتھ اپنی عاجزی و کمزوری کا ادراک کرتا ہے اور اس کی وجہ سے ہر قسم کے ریا سے پاک روحانی عبادت تک رسائی حاصل کرلیتا ہے۔

یہ بات متعدد صحیح روایات سے ثابت ہے کہ صابرین اور شاکرین کی بیماری کا ایک لمحہ پورے گھنٹے کی عبادت کے برابر ہے اور جو لوگ تقویٰ اور پرہیزگاری کے اعلیٰ مقام پر ہوتے ہیں اُن کی بیماری کا ایک لمحہ پورے دن کی عبادت کے برابر ثواب رکھتا ہے۔ اس لئے اے برادر عزیز! آپ اس بیماری پر گلہ شکوہ نہ کریں جو آپ کی زندگی کے ایک مشکل ترین لمحے کو بیش قیمت لمحات میں تبدیل کردیتی ہے اور آپ کی مختصر عمر کو عمر دراز میں بدل دیتی ہے۔ آپ کو تو اس پر اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرنا چاہئے۔

ایک مخلص واعظ و ناصح: اے مریض بھائی! انسان اس دنیا میں محض عیش و عشرت کے لئے نہیں آیا۔ جو بھی آیا ہے بالآخر اسے ایک روز سب کچھ چھوڑچھاڑ کر جانا ہے۔ ہر گزرنے والا لمحہ موت سے ہمکنار کررہا ہے، جوانی تیزی سے بڑھاپے میں ڈھل رہی ہے۔ مگر کچھ لوگ ایسے بھی ہیں جو پرتعیش زندگی اور اپنی دنیا میں مگن ہیں اور خدا اور خوفِ خدا سے بالکل بے نیاز ہوتے ہیں۔ اگر کبھی گردشِ زمانہ سے تنگ دستی و درماندگی کا شکار ہوجاتے ہیں تو اپنے ماضی کو یاد کرکے اور اپنے موجودہ مصائب کو دیکھ کر لرز جاتے ہیں اور زندگی ہی سے مایوس ہوجاتے ہیں۔

یہ بیماری ہی ہے جو غفلت میں مبتلا شخص کو جو پرتعیش زندگی گزار رہا ہو اور اپنی دنیا میں گم ہو، زندگی کی حقیقت سے باخبر کرتی ہے اور آخرت کی فکر سے ہمکنار کرتی ہےاور اس کی آنکھیں کھول دیتی ہے۔ گویا کہ بیماری اس سے کہہ رہی ہوتی ہے: تم یہاں ہمیشہ نہیں رہو گے، تم آزاد نہیں ہو کہ جو چاہو کرو، بلکہ تم ایک ڈیوٹی پر مقرر ہو، دھوکے میں نہ آؤ ، اپنےر ب کو یاد کرو اور جان لو کہ تم قبر میں جانے والے ہو، اس کی تیاری کرو۔ اس طرح بیماری ایک واعظ، مرشد اور نیک مشورہ دینے والے کا کردار ادا کرتی ہے، تب شکوہ و شکایت کی گنجائش نہیں رہتی بلکہ شکر کے سائے میں پناہ لینے کی ضرورت محسوس ہوتی ہے۔
 
حقیقی تندرستی کا پیغام: اے مصیبت زدہ! بعض لوگوں کیلئے بیماری ایک طرح کا احسان اور خدائی تحفہ ہے۔ یہ ہمارا مشاہدہ ہے کہ جو زیادہ بیماری کے درد و کرب میں مبتلا ہوتا ہے وہ آخرت کے بارے میں زیادہ فکرمند ہوتا ہے۔ کچھ لوگ ایسے بھی ہیں جو تندرستی کی نعمت سے مالامال ہیں مگر اپنی زندگی کو سنوارنے والے اعمال کا کوئی خیال ہی نہیں رکھتے بلکہ دنیوی زندگی کے چند لمحات کو خوبصورت بنانے کے لئے خدا کے احکام کو ڈھادینے سے بھی دریغ نہیں کرتے۔ بیمار اپنے صحت یابی کی اُمید کے باوجود، مرض کے سبب اپنی آنکھوں سے اپنی قبر کو سامنےدیکھ رہا ہوتا ہے جو اس کا یقینی گھر ہے اور وہاں جانے کے علاوہ کوئی چارہ نہیں ہے۔ اس طرح مریض کے اندر تحرک پیدا ہوتا ہے اور اُس کے مطابق وہ اپنا عمل درست کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ اس لئے یہ بیماری تو آپ کے لئے حقیقی تندرستی کا پیغام ہے۔

معرفت ِ رب: اے اپنی آخرت کو یاد کرنے والے مریض! آپ کی بیماری تو صابن کی طرح ہے، یہ آپ کے میل کچیل کو دور کرتی ہے، آپ کے گناہوں کو مٹاتی ہے اور خطاؤں سے معافی کا ذریعہ بنتی ہے۔ حدیث صحیح میں ہے کہ جب بھی کوئی مسلمان کسی تکلیف میں مبتلا ہوتا ہے تو اس کے گناہ ایسے جھڑتے ہیں جیسے درختوں کے پتے جھڑتے ہیں۔(بخاری) چنانچہ جب آپ صبر کریں گے اور شکوہ شکایت سے اجتناب کریں گے تو آپ اس موجودہ بیماری کے ذریعے اپنے آپ کو بہت سی دائمی بیماریوں سے بچالیں گے۔

Disclaimer: All material on this website is provided for your information only and may not be construed as medical advice or instruction. No action or inaction should be taken based solely on the contents of this information; instead, readers should consult appropriate health professionals on any matter relating to their health and well-being. The data information and opinions expressed here are believed to be accurate, which is gathered from different sources but might have some errors. Hamariweb.com is not responsible for errors or omissions. Doctors and Hospital officials are not necessarily required to respond or go through this page.

Syed Mujtaba Daoodi
About the Author: Syed Mujtaba Daoodi Read More Articles by Syed Mujtaba Daoodi: 45 Articles with 57381 views "I write to discover what I know.".. View More