رحمت اور زحمت میں فرق ( دوسرا اور آخری حصہ)

میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں کو میرا آداب رحمت اور زحمت میں فرق کے عنوان سے لکھے گئے اس مضمون کا آج ہم دوسرا حصہ لے کر حاضر ہوئے ہیں قبلہ مفتی صاحب فرماتے ہیں کہ ہمارے معاشرے میں اور آج کے دور میں ہم اپنے بچوں کو اعلی تعلیم حاصل کروانے کی تق ودو میں ہر طریقہ استعمال کرجاتے ہیں تاکہ وہ اس عارضی دنیا کی تعلیم حاصل کرکے ایک کے بعد ایک ڈگری لیتا جائے اور پھر اتنا پیسہ کمانے کے قابل ہو جائے کہ ہم اپنے اردگرد لوگوں میں اپنے سر کو فخر سے بلند کرکے لوگوں میں یہ باور کروا سکیں کہ ہمارا لخت جگر اس دنیا کا ایک اعلی تعلیم یافتہ نوجوان ہے اب چاہے اسے دینی علم کا الف سے ب کا بھی پتہ کیوں نہ ہو اسے نماز کے واجبات کا ہی پتہ کیوں نہ ہو لیکن ہم فخر سے اسے اللہ کی نعمت اور رحمت سمجھ لیتے ہیں اور یہ بھول جاتے ہیں کہ ایسی اولاد ہمارےلئے فتنہ ہوگی اور ہمیں جہنم میں لیجانے کا سبب بھی ہوگی۔

میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں ہمارے معاشرے میں کئی لوگ ایسے ہوتے ہیں جو بیمار کم ہوتے اور پھر وہ بڑے فخریہ انداز سے دوسروں کو کہتے ہیں کہ ہم تو بیمار ہوتے ہی نہیں بیشک یہ اللہ کی ایک بہت بڑی نعمت ہے کہ اس نے خیروعافیت کے ساتھ رکھا ہوا ہے یہ اس کی رحمت ہے کہ صحت و تندرستی کے ساتھ اس رب تعالیٰ نے رکھا ہوا ہے لیکن اگر کوئی تکلیف یا بیماری کا اچانک سامنا ہو جائے تو ایک وبال مچادیتے ہیں کہ یہ کیا ہوا اور کیوں ہوا حالانکہ بیماری کا آنا بھی اللہ کی رحمت ہے اور نہ آنا بھی اس کی رحمت اور نعمت ہے لیکن ہم آنے والی بیماری کو اپنے لئے زحمت بنادیتے ہیں ناشکری کرکے اس رب تعالی کی منشاء پر شک کرنے لگتے ہیں جو ایک صحیح عمل نہیں ہے ۔

میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں اسی حوالے سے قبلہ مفتی صاحب فرماتے ہیں کہ جب انسان بیمار ہو جائے تو اسے یہ خیال کرلینا چاہئیے کہ یہ بیماری میرے گناہوں کا کفارہ ہے اور بروز محشر میرے لئیے باعث اجروثواب ہے ہمارے یہاں عام طور پر یہ سمجھا جاتا ہے کہ جو زیاد تر بیمار رہتا ہے وہ اللہ تعالیٰ کی پکڑ میں ہے اللہ تعالیٰ اس سے ناراض ہے اور جو صحت مند رہتا ہے اس سے اللہ تعالیٰ خوش ہے جبکہ بیماری کبھی کبھی گناہوں کو مٹانے کی غرض سے آتی ہیں اور کبھی کبھی یہ درجات کی بلندی کے لئے آتی ہیں اگر آپ اسلام کی تاریخ کو پڑھیں تو معلوم ہوتا ہے کہ ہمارے کئی اولیاء کرام ,بزرگان دین , حتی کہ کئی انبیاء کرام نے بھی بیماریوں اور پریشانیوں میں میں مبتلہ ہوکر تکالیف کا سامنا کیا جو ان کے درجات کے بلندی کے لئے انہیں عطا کی گئی ۔

میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں قبلہ مفتی صاحب فرماتے ہیں کہ اگر کوئی شخص گناہ پر گناہ کرتا ہو نہ نماز پڑھتا ہو اور نہ ہی کوئی نیک عمل کرتا ہو یہاں تک کہ وہ کفر بھی کرتا ہو اور صحت مند ہو تندرست ہو اور وہ سمجھتا ہو کہ اللہ تبارک و تعالیٰ اس سے خوش ہے تو یہ اس کی غلط فہمی ہے نادانی ہے فرعون جیسا شخص کم و بیش 400 برس ژندہ رہا نہ کبھی اسے کوئی بیماری لاحق ہوئی اور نہ ہی اسے کبھی سر میں درد ہوا تو اس کا مطلب یہ نہیں کہ اللہ رب العزت اس سے خوش تھا اگر کوئی شخص تندرست بھی ہے مالدار بھی ہے اللہ تعالی کی طرف سے نعمتوں کی اس پر چھما چھم بارش بھی ہوتی جاتی ہے تو یہ سمجھ لینا کہ رب تعالی اس سے خوش ہے اور یہ سوچنا کہ یہ تو گناہگار بھی ہے کوئی نیک عمل بھی نہیں کرتا تو پھر رب تعالی کی اس پر اتنی کرم نوازی کیوں ؟

میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں قبلہ مفتی صاحب فرماتے ہیں کہ یہ ایسے لوگوں کی آزمائش ہوتی ہے ایک امتحان ہوتا ہے ایک حدیث کے مطابق ایک شخص نے جب سرکار صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلیہ وسلم سے پوچھا کہ بیماریاں کیا ہوتی ہیں میں تو کبھی بیمار ہی نہیں ہوا تو آپ صلی اللہ علیہ وآلیہ وسلم نے فرمایا کہ یہاں سے اٹھ جا کہ تو ہم میں سے نہیں ہے کیوں کہ اگر کوئی گناہ گار ہو تو بیماری اس کے گناہوں کے کفارے کے طور پر آتی ہیں اور اگر کوئی نیک شخص بیمار ہو جائے تو یہ بیماری اس کے درجات بلند کرنے کا سبب بنتی ہے ایک صحابی رسول کی بیوی نے طلاق کا مطالبہ کردیا وہ سوچنے لگے کہ زندگی بڑی اچھی گزر رہی ہے کوئی جھگڑا بھی نہیں کوئی نااتفاقی بھی نہیں پھر یہ طلاق کا مطالبہ کیسا ؟
میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں ان صحابی رسول نے اپنی زوجہ سے کہا کہ ہم سرکار علیہ وآلیہ وسلم کے حضور یہ معاملہ رکھتے ہیں وہ جو فیصلہ فرمائیں گے ہم اس پر عمل کرلیں گے لہذہ وہ آپ صلی اللّٰہ علیہ وآلیہ وسلم سے ملاقات کا شرف حاصل کرنے کے لئے گھر سے روانہ ہوئے راستے ان صحابی رسول کو ایک ٹھوکر لگی اور وہ زخمی ہوگئے تو ان کی زوجہ نے عرض کیا کہ اب مجھے طلاق نہیں چاہئے آپ واپس گھر چلیں تو انہوں نے کہا کہ تمہارے طلاق کا مطالبہ کرنا بھی میری سمجھ سے بالاتر تھا اور اب اس بات سے مکر جانا بھی میری سمجھ سے بالاتر ہے آخر بات کیا ہے تو ان کی زوجہ نے عرض کیا کہ میں نے اللہ رب العزت کے حبیب صلی اللّٰہ علیہ وآلیہ وسلم سے سنا کہ جس شخص کو 40 روز تک کوئی بیماری نہ ہو تکلیف نہ ہو تو ممکن ہے کہ رب تعالی اس سے ناراض ہے ۔

میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں وہ کہتی ہیں کہ میں نے محسوس کیا کہ نہ تو آپ کبھی بیمار ہوئے اور نہ ہی کوئی تکلیف ہوتی نظر آئی تو میں ڈر گئی کہ کہیں میں ایک ایسے شخص کی نکاح میں تو نہیں کہ جس سے اللہ رب العزت ناراض ہے لیکن جب آپ کو ٹھوکر لگی آپ زخمی بھی ہوئے اور آپ کو تکلیف بھی ہوئی تو مجھے اطمینان ہوگیا یقین ہوگیا کہ رب تعالی آپ سے ناراض نہیں ہے بلکہ راضی ہے کسی نے آپ صلی اللّٰہ علیہ وآلیہ وسلم سے پوچھا کہ سب سے زیادہ سخت آزمائش اور امتحان کس پر آتی ہیں تو آپ صلی اللّٰہ علیہ وآلیہ وسلم نے فرمایا کہ سب سے زیادہ سخت آزمائش انبیاء علیہم السلام کی ہوتی ہے پھر ان علماء کی ہوتی ہے جو باعمل ہوتے ہیں انہیں تکالیف بھی آتی ہیں آزمائش بھی ہوتی ہے اس کے بعد ہر نیک اور متقی انسان پر یہ تکالیف سخت آزمائش کی صورت میں آتی ہیں یعنی سب سے سخت آزمائش ایسے لوگوں پر آتی ہیں ۔

میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں حضرت جابر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ سرکار مدینہ صلی اللّٰہ علیہ وآلیہ وسلم نے فرمایا کہ جب "بروز محشر جنہوں نے دنیاوی زندگی میں تکالیف اور بیماریوں کا سامنا کرتے ہوئے صبر کیا انہیں جو اجروثواب عطا کیا جائے گا تو وہ لوگ جو دنیا میں صحت مند اور تندرست تھے جنہوں نے اپنی زندگی عافیت کے ساتھ گزاری ہوں گی تو وہ کہیں گے کہ اگر دنیا میں ہماری کھالوں کو کینچی سے کاٹ دیا جاتا اور ہماری پوری زندگی تکلیفوں میں گزر جاتی تو ہمیں بھی یہاں اجروثواب ملتا ۔ بخاری شریف اور مسلم شریف میں ہے کہ مسلمان پر تکلیف ,بیماری٫ غم , فکر ٫ ٹینشن اور اذیت جو بھی آتی ہے یہاں تک کے اگر پائوں میں ایک کانٹا بھی چبھ جائے تو رب تعالی ان تکالیف کی بدولت اس کی خطائوں کو گناہوں کو مٹا دیتا ہے ۔

میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں یعنی ان تمام تکالیف کی وجہ سے ہمارے گناہ معاف ہو جاتے ہیں اور جب گناہ معاف ہوتے ہیں تو درجات بلند ہوتے ہیں ایک حدیث میں آیا کہ جب دنیا میں رہ کر کوئی شخص تکالیف میں زندگی گزارتا ہے پھر اس پر اپنے رب تعالی کا شکر ادا کرتا ہے صبر کرتا جاتا ہے تو جب وہ دنیا سے رخصت ہوتا ہے تو اپنے رب کے سامنے بالکل پاک و صاف ہوکر پہنچتا ہے اب آپ اللہ رب العزت کا کرم اور اس کا فضل دیکھئے کہ جب وہ کسی شخص کو جنت میں ایک اعلی مقام عطا کرنا چاہتا ہے لیکن دنیا میں اس کے اعمال اس درجہ تک نہیں پہنچے ہوئے ہوتے تو وہ رب تعالی اسے دنیا میں تکلیفوں اور بیماریوں میں مبتلہ کردیتا ہے اور اگر پھر بھی اس کے اعمال اس درجہ تک نہیں پہنچ پاتے تو نزع کے وقت وہ تکلیف اٹھاتا ہے اور پھر جب وہ اپنے رب سے ملتا ہے تو اللہ تعالیٰ اسے بغیر حساب و کتاب جنت میں داخل کردیتا ہے ۔

میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں قبلہ مفتی صاحب فرماتے ہیں کہ ابی داؤد کی ایک حدیث کے مطابق کہ جب ایک مومن زندگی میں بیماری اور تکالیف میں مبتلہ ہوتا ہے پھر جب رب تعالی اس سے وہ بیماری اور تکالیف دور کردیتا ہے تو بیماری اس کے گناہوں کا کفارہ بن کر آگے کے لئیے نصیحت بن جاتی ہے یعنی جو تکلیفوں کے باوجود صبر کرتا ہے گناہوں سے بچتا ہے اور اپنے رب کا ہر حال میں شکر بجا لاتا ہے آگے اسی حدیث کے الفاظ ہیں کہ بیشک ایک منافق جب بیمار ہوکر صحت مند ہوتا ہے تو وہ اس اونٹ کی مانند ہوتا ہے جس کا مالک اسے باندھ دیتا ہے پھر چھوڑ دیتا ہے اس اونٹ کو یہ علم ہی نہیں ہوتا کہ اسے کیوں باندھا گیا اور کیوں چھوڑ دیا گیا بالکل اسی طرح کا حال ایک منافق کا ہے اسے یہ معلوم ہی نہیں کہ مجھے بیماری کیوں آئی اور کیوں چلی گئی ۔

میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں قبلہ مفتی صاحب رحمت اور زحمت میں فرق کے موضوع پر گفتگو کرتے ہوئے مزید فرماتے ہیں کہ کرونا جیسی وباء اور مرض جس نے پوری دنیا کو ایک ساتھ اپنے لپیٹ میں لے لیااور اس وباء نے کئی لوگوں کی زندگیوں کو بدل کر رکھ دیا دنیا کے بیشتر ممالک میں سخت لاک ڈائون نافذ کرکے وہاں کی گورنمنٹ نے لوگوں کو گھروں میں رہنے کی تاکید کردی ہمارے اپنے ملک میں تعلیمی اداروں کو بند کرکے چھٹیوں کا اعلان کردیا گیا لاک ڈائون کاروباری مارکیٹوں میں مخصوص اوقات میں کھلنے کا اعلان ہوا مساجدوں میں بچوں اور ضعیف العمر لوگوں کا داخلہ بند کردیا گیا کئی کاروبار بند ہوگئے لاکھوں کروڑوں لوگ بے روزگار ہوگئے اور لوگوں کو لاکھوں کروڑوں کا نقصان اٹھانا پڑا Social distanse کی پابندی اور ویکسینیشن لگائے بغیر ایک شہر سے دوسرے شہر تک جانے کی بھی پابندی یہاں تک کہ لوگ حج اور عمرہ جیسی زیارتوں سے بھی دو سال تک محروم رہے ۔

میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں قبلہ مفتی صاحب فرماتے ہیں کہ لیکن ہم نے کبھی اس بات پر غور نہیں کیا کہ یہ بیماری آئی کیوں ؟ کبھی ہم نے اپنے آپ سے یہ سوال نہیں کیا کہ یہ بیماری وباء کی شکل میں کس طرح پوری دنیا پر قابض ہوگئی اور اپنا وقت مقررہ گزار کر یہ بیماری واپس بھی چلی گئی یعنی جو منافقین کا حال ہے وہ ہم مسلمانوں کا حال ہوگیا ہے یعنی وہ بیمار ہوتا ہے اور ٹھیک ہو جاتا ہے لیکن اسے بیماری کے نہ آنے کی وجہ معلوم نہ ہی جانے کی جبکہ حقیقت یہ ہے کہ بیماری ہمیں جھنجھوڑنے کے لئیے آئی یہ وباء ہم پر مسلط اس لئیے کی گئی کہ ہم توبہ کریں اپنے گناہوں سے ہم اپنے اعمال کی اصلاح کرلیں اور اگر ہم نے توبہ کی اور بیماری چلی گئی تو یہ خالق حقیقی کی بڑی رحمت ہے انسان کو چاہئے کہ اتنا سب کچھ دیکھ کرمحسوس کرکے اپنے گناہوں سے باز آجائے توبہ واستغفار کرکے اللہ تعالیٰ سے معافی مانگے ۔

میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں جب کوئی بیماری یا تکلیف ایسی آجائے کہ جس سے ہمیں کچھ سیکھنے کو ملے تو یہ واقعی اللہ رب العزت کی طرف سے ایک آزمائش ہوتی ہے اب آپ دیکھیں جہاں عورتیں اپنے چہرے پر نقاب لگانے کے لئے تیار نہ تھیں کرونا کی وجہ سے دنیا کے بیشتر ممالک میں عورتیں تو عورتیں مردوں نے بھی نقاب ( ماسک) لگانے شروع کردئیےکئی ہمارے بھائی ایسے تھے جو نماز کے لیے دکان بند نہیں کرتے تھے جمعہ کے لیے دکان بند نہیں کرتے تھے نمازیں قضا ہو جاتی ہیں جمعہ چھوٹ جاتا ہے یا دیر سے بند کرتے ہیں اور عین وقت پر پڑھ لیتے ہیں لیکن شرعی حکم یہ ہے کہ جمعہ کی پہلی اذان پر کاروبار بند ہو جائے کہ ایسے وقت پر کاروبار کرنا حرام ہے تو ہم مسلسل یہ غلطیاں کرتے رہے لیکن کرونا میں حکومت کہتی ہے پولیس کہتی ہے اتنے بجے دکان کھولنی ہے اتنے بجے بند کر دینی ہے لاک ڈاؤن لگ رہا ہے تو اب مجبورا بند کر رہے ہیں۔

میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں قبلہ مفتی صاحب فرماتے ہیں کہ ہم نے اللہ رب العزت کا حکم تو مانا نہیں اور اب گورنمنٹ اور پولیس کا حکم ماننے پر مجبور ہیں ہمیں یہ عظم کرنا چاہئے کہ ہم اللہ کی بارگاہ میں توبہ کرتے ہیں رجوع لاتے ہیں اب گناہ نہیں کریں گے اور شریعت کی پابندی کریں گے تو پھر دیکھیں کیسا کرم ہوتا ہے ہمارے یہاں اکثر یہ دیکھا گیا ہے کہ جیسے اگر کوئی شخص بیمار ہوگیا اور اس کی بیماری طویل ہوگئی اور کئی تکالیف اٹھانے کے بعد وہ انتقال کرگیا پھر نزع کے وقت بھی کافی تکلیفوں کا سامنا کرنا پڑا تو لوگ اسے اچھی موت تصور نہیں کرتے حالانکہ کبھی کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ کوئی اللہ کا نیک بندہ ہوتا ہے تو اللہ کی طرف سے اس پر آزمائش اور امتحان آجاتا ہے صرف اس کے درجات کو بلند کرنے کے لئے حضرت ایوب علیہ السلام کم و بیش اٹھارہ سال تک بیمار رہے لیکن صبر کا دامن ہاتھ سے نہ چھوڑا اور پھر اللہ نے ان کے درجات کو جس طرح بلند کیا تاریخ اسلام اس کی گواہ ہے ۔

میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں میں نے پہلے بھی ذکر کیا ہے کہ کبھی کبھی اللہ کسی گناہگار کو کوئی بلند مقام عطا کرنا چاہتا ہے تو اسے دنیا میں بیماری اور تکلیفوں کی آزمائش میں ڈال دیتا ہے اور وہ اپنے رب سے گناہوں سے پاک ہوکر ملتا ہے کبھی کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ کسی کی اچانک موت واقع ہو جاتی ہے نہ اسے کوئی بیماری ہوئی نہ کوئی تکلیف تو کبھی یہ اچھا بھی ہوتا ہے کہ وہ اللہ کا کوئی نیک بندہ ہوتا ہے لیکن کبھی یہ اچھا نہیں بھی ہوتا کہ اگر کوئی کافر یا کوئی انتہائی گناہگار شخص کو اچانک موت آجائے تو ایسےانسان کو توبہ کی توفیق نصیب نہیں ہوتی جبکہ موت سے پہلے جب انسان بیماری کی حالت میں ہوتا ہے تو اسے احساس ہو جاتا ہے اپنے کئے گئے گناہ پر وہ نادم ہو جاتا ہے لوگوں سے معافی مانگ لیتا ہے اپنے رب سے اپنے گناہوں کی معافی مانگ لیتا ہے اور اسے موقع مل جاتا ہے کہ وہ توبہ کرلے ۔

میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں ایک حدیث مبارکہ جو ( موطع امام مالک ) میں ہے کہ سرکار صلی اللہ علیہ وآلیہ وسلم کے زمانہ میں ایک شخص کو اچانک موت آگئی تو کسی نہ کہا کہ مبارک ہو یہ شخص بغیر بیمار ہوئے بغیر کوئی تکلیف اٹھائے دنیا سے رخصت ہوگیا یہ اس کے لئے ایک خوشخبری ہے تو آنحضرت صلی اللّٰہ علیہ وآلیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ تو جانتا نہیں کہ اگر موت سے پہلے یہ کسی بیماری میں مبتلا ہو جاتا تو اللہ اس کے سبب اس کے گناہوں کو معاف فرما دیتا اس لئے بیمار ہوکر مرنا باعث سعادت ہوتا ہے ایک اور حدیث میں آیا کہ اگر کوئی صحیح العقیدہ مسلمان اگر طاعون جیسی خطرناک بیماری میں مبتلا ہوکر مرجائے تو اسے شہادت کا رتبہ دیا جاتا ہے جو شخص پیٹ کی کسی بیماری میں مبتلا ہوکر انتقال کرجائے یا پانی میں ڈوب کر مر جائے یا کسی عمارت کے گرنے کے سبب اس کے ملبے میں دب کر انتقال کر جائے یا کوئی شخص آگ میں جل کر مر جائے یا کوئی عورت بچے کی ولادت کے وقت تکلیف برداشت نہ کرتے ہوئے انتقال کر جائے تو اللہ انہیں شہادت کا رتبہ عطا فرماتا ہے ۔

میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں قبلہ مفتی صاحب فرماتے ہیں کہ ایک اور حدیث جس کے راوی ہیں حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ اور یہ حدیث ( ابن ماجہ ) کی حدیث ہے کہ حضور پُرنور صلی اللّٰہ علیہ وآلیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ جو شخص کسی مرض میں مبتلا ہوکر مریض ہونے کی حالت میں انتقال کرگیا تو وہ شہید ہوکر دنیا سے گیا یعنی اسے قبر کے عذاب سے بچا لیا جاتا ہے اور جنت میں اسے باقاعدہ رزق دیا جائے گا یعنی ہر مریض کے لئے یہ فضیلت اور یہ مقام ہے قرآن مجید فرقان حمید کی سورہ الشوری آیت نمبر 30 میں ارشاد باری تعالیٰ ہے کہ
وَمَاۤ اَصَابَكُمۡ مِّنۡ مُّصِيۡبَةٍ فَبِمَا كَسَبَتۡ اَيۡدِيۡكُمۡ وَيَعۡفُوۡا عَنۡ كَثِيۡرٍؕ

ترجمعہ کنزالایمان :
اور تمہیں جو مصیبت پہنچی وہ اس کے سبب سے ہے جو تمہارے ہاتھوں نے کمایا اور وہ بہت کچھ تو معاف فرما دیتا ہے ۔

قبلہ مفتی صاحب فرماتے ہیں کہ مطلب یہ ہے کہ زندگی میں ہم سے کئے گئے گناہوں کے سبب ہم پر مصیبت اور پریشانیاں نازل ہوتی ہیں لیکن یہ پریشانیاں اہل ایمان مومن کے لئے زحمت نہیں ہوتی بلکہ اس کے لئے رحمت کا سبب ہوتی ہیں کہ اس کے عوض اللہ اس کے نہ صرف گناہوں کو معاف کردیتا ہے بلکہ اس کے درجات بھی بلند فرما دیتا ہے کیوں کہ ایک مومن کی کسی بیماری میں حالت ایسی ہوتی کہ اسے اپنے گناہوں پر شرمندگی ہوتی ہے اس کا دل نرم ہو جاتا ہے اس کی آنکھوں سے ندامت کے آنسو جاری رہتے ہیں اور وہ اپنے رب سے سچی توبہ کرلیتا ہے بس پھر اللہ اپنے کرم سے اس کے تمام گناہوں کو معاف کرکے انہیں نیکیوں میں بدل دیتا ہے ۔

میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ جب کوئی شخص بڑی عمر میں پہنچ کر بیماری میں مبتلا ہو جاتا ہے اور اگر اس نے اپنی جوانی میں کوئی خاطر خواہ نیک اعمال نہ کئے ہوں اور یوں ہی جوانی گزارتا ہوا بڑھاپے کی طرف آگیا تو اسے یہ احساس ہوتا ہے کہ میں نے اپنی جوانی میں کوئی نیک عمل نہیں کیا اور اب بڑھاپے اور بیماری کی وجہ سے میں وہ اعمال کرنے کے قابل نہ رہا تو اس کا سب سے آسان حل یہ ہے کہ جو لوگ اس وقت اپنی جوانی کی عمر سے گزر رہے ہیں تو انہیں چاہئے کہ وہ خوب سے خوب نیکیاں کریں تاکہ جب وہ بڑھاپے کی دہلیز پار کریں گے تو انہیں یہ ملال نہ ہوگا کہ وہ نیک اعمال نہ کرسکیں کیوں کہ بروز محشر اعمال وہی گنے جائیں گے جو کئے ہوں گے اگر جوانی میں نیک اعمال نہ کئے اور بڑھاپے میں پہنچ گئے اور اب وہ اعمال کرنے کی سکت نہیں تو ندامت ہوگی کہ اب میرا کیا ہوگا ۔

میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں قبلہ مفتی صاحب فرماتے ہیں کہ دنیا میں رہتے ہوئے زندگی میں ہمیں ایسی کئی مثالیں دیکھنے کو ملتی ہیں کہ جہاں ہمیں رحمت اور زحمت کا فرق نظر نہیں آتا اللہ تعالیٰ کی طرف سے ملنے والی رحمت کو ہم کئی مرتبہ اپنے لئے زحمت بنالیتے ہیں اور بعض دفعہ اللہ رب العزت کی طرف سے عطا ہونے والی نعمت اور رحمت ہمارے لئے ہماری غلطیوں کی وجہ سے ہمارے لئے عذاب کا سبب بن کر ہمارے لئے زحمت بن جاتی ہیں جو خوشنصیب رحمت اور زحمت کے فرق کو سمجھ جاتے ہیں وہ صبر اور شکر کے ساتھ اللہ تعالیٰ کی ہر آزمائش پر پورا اتر جاتے ہیں اللہ تعالیٰ ہمیں بھی اپنی ہر آزمائش پر پورا اترنے کی توفیق عطا فرمائے ۔

میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں قبلہ مفتی صاحب نے مزید فرمایا کہ رحمت اور زحمت کے فرق ہم ایک اور بہت اہم چیز کا ذکر کریں گے یہ وہ نعمت ہے وہ رحمت ہے جس کو اپنی غلطیوں سے ہم اپنے لئے زحمت بنادیتے ہیں ۔

میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں وہ چیز ہے دعا کا مانگنا اکثر وبیشتر یہ دیکھا گیا ہے اور ہم چاہتے ہیں کہ ہماری دعا اسی وقت قبول ہو جائے جبکہ دعا کی قبولیت میں اللہ رب العزت کی مرضی , منشاء اور مصلحت کار فرما ہوتی ہے ایک بات یاد رکھئے کہ دعا ہر حال میں قبول ہوتی ہے دعا کسی بھی حالت میں ناقابل قبول نہیں ہوتی ہاں یہ ضرور ہے کہ دعائوں کے درجات ہوتے ہیں کچھ دعائیں ایسی ہوتی ہیں جو فورا قبول ہو جاتی ہیں کچھ دعائیں ایسی ہوتی ہیں جو تاخیر سے قبول ہوتی ہیں کچھ دعائیں ایسی ہوتی ہیں جو قابل قبول نہیں ہوتی لیکن اللہ تبارک و تعالیٰ اس کے سبب کوئی آنے والی مصیبت ٫ پریشانی یا بلا کو ٹال دیتا ہے جبکہ کچھ دعائیں ایسی بھی ہوتی ہیں جنہیں اللہ تعالیٰ ہمارے لئے محشر کے روز اجروثواب دینے کی غرض سے اپنے پاس محفوظ کردیتا ہے گویا ہر مانگی گئی دعا کی قبولیت اس اپنے درجات کے سبب ہوتی ہے بس ایک بات یاد رکھئے کہ جب بھی دعا کے لئے ہاتھ اٹھائیں تو اس میں " خیروعافیت" کے ساتھ کا اضافہ کردیجیے پھر دیکھیں آپ کی دعا نہ صرف قبول ہوگی بلکہ اس کی قبولیت میں اللہ کی طرف سے خیروعافیت کی جھلک بھی نظر ائیگی۔

میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں قبلہ مفتی صاحب فرماتے ہیں کہ شیخ سعدی رحمتہ اللّہ علیہ اسی سلسلے میں ایک واقعہ بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ ایک شخص تھا جس کے یہاں اولاد نہیں تھی وہ کئی بزرگوں اور اللہ کے ولیوں کے پاس جاتا اور انہیں اپنا مسئلہ بیان کرتا رہا پھر ایک بزرگ نے اسے فرمایا کہ تم مکہ شریف جائو اور خانہ کعبہ پر لگے ہوئے حجر اسود کی سیدھ میں جب مقام ابراھیم تمہارے دائیں طرف ہو تو وہاں کھڑے ہوکر دعا کرنا تمہاری دعا ان شاء اللہ ضرور پوری ہوگی لہذہ وہ شخص مکہ شریف پہنچ کر جیسا کہا گیا تھا ویسے ہی کھڑے ہوکر دعا مانگی کہ یا اللہ مجھے چاند جیسا بیٹا عطا کر اللہ رب العزت نے اس کی دعا سن لی اور اس کے یہاں ایک خوبصورت سا بیٹا پیدا ہوا ۔

میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں وقت گزرتا گیا اور وہ بچہ بڑا ہوتا گیا جیسے جیسے وہ بڑا ہوتا گیا اسے یہ احساس ہوتا گیا کہ وہ ایک بہت بڑے باپ کا بیٹا ہے لہذہ وہ بگڑ گیا اکلوتے اور بڑی دوائوں کے بعد ملنے والی اولاد کو ویسے بھی لاڈ پیار میں رکھا جاتا ہے لہذہ اس بچے کے ساتھ بھی یہ ہی ہوا اور یوں ماں باپ کے لاڈ پیار نے اس میں بگاڑ پیدا کردیا اور وہ بے جا پیسہ خرچ کرنے اور عیش و عیاشی میں وقت گزارنے لگا یوں ہی ایک دفعہ اس نے اپنے باپ سے کہا کہ ابا جان میری پیدائش کے لئے آپ نے جہاں دعا مانگی تھی کہا آپ مجھے وہاں لیکر جاسکتے ہیں ؟ بچے کا یہ سوال سن کر باپ پہلے تو حیران ہوگیا پھر سوچنے لگا کہ شاید میرا رب اسے اسی بہانے سیدھا راستہ دکھانا چاہتا ہے اس لئے اس کے دل میں یہ خواہش پیدا ہوئی تو اس نے کہاکہ ہاں بیٹا کیوں نہیں لہذہ جانے کا بندوبست کرکے باپ نے اپنے بیٹے کو لیکر خانہ کعبہ کے سامنے ٹھیک اسی جگہ پر لاکر کھڑا کردیا اور کہا کہ بیٹا یہ ہی وہ جگہ ہے جہاں میں نے تیرے لئے اپنے رب سے دعا مانگی اور اس نے قبول کرلی تو بیٹے نے بھی دعا کے لئے ہاتھ اٹھائے لیکن اس کے دعا مانگنے کے الفاظ سن کر باپ حیران و پریشاں ہوگیا کہ یہ کیا مانگ رہا ہے ؟ وہ کہ رہا تھا کہ اے اللہ میرے باپ کو اب جلدی سے اپنے پاس بلا لے بچے کے منہ سے یہ الفاظ سن کر باپ نے کہا بیٹا یہ کیا کہ رہے ہو تو بیٹا کہنے لگا کہ میں صحیح تو کہ رہا ہوں آپ دنیا سے جائو گے تو میں کھل کر آپ کی دولت خرچ کرسکوں گا اور عیش و عیاشی کی زندگی گزار سکوں گا ۔

میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں حضرت شیخ سعدی رحمتہ اللّہ علیہ فرماتے ہیں کہ اللہ رب العزت نے اس باپ کی دعا تو قبول کرلی تھی لیکن اس شخص نے اپنی دعامیں " خیروعافیت" والے الفاظ استعمال نہیں کئےاگروہ اپنی دعا میں یہ کہ دیتا کہ اے اللہ مجھے خیروعافیت کے ساتھ ایک چاند جیسا بیٹا عطا کردے تو اس کے ساتھ ایسا نہ ہوتا جیسے ہوا اس لئیے ہمیشہ یاد رکھئے کہ دعا مانگتے وقت خیروعافیت کی دعا ضرور مانگیں اللہ رب العزت آپ کو وہی عطا کرے گا جس کی آپ کو تمنا ہے طلب ہے ان شاءاللہ۔

آخر میں میں دعا کرتا ہوں کہ اللہ رب العزت قبلہ مفتی آصف عبداللہ قادری دامت برکاتہم العالیہ کے علم میں عمل میں دن دگنی اور رات چگنی ترقی عطا فرمائے دعا ہے کہ اللہ رب العزت ہمیں عطا کی ہوئی ہر نعمت کو ہمارے لئے ہمیشہ رحمت بنائے رکھے اور اپنی کی ہوئی ہر رحمت کو ہمیں اپنے لئے زحمت بنانے سے دور رکھے ہمیں صبر ٫شکر اور خیروعافیت کے ساتھ زندگی بسر کرنے کی توفیق عطا کرے اور اپنے اور اپنے حبیب کریم صلی اللّٰہ علیہ وآلیہ وسلم کے احکامات پر عمل پیرا رہنے کی توفیق عطا کرے آمین آمین بجاہ النبی الکریم صلی اللّٰہ علیہ وآلیہ وسلم ۔
 

محمد یوسف میاں برکاتی
About the Author: محمد یوسف میاں برکاتی Read More Articles by محمد یوسف میاں برکاتی: 120 Articles with 82012 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.