ماں بچے کو دودھ پلا رہی تھی، اچانک دونوں مر گئے ۔۔ ماں بچے کی ہلاکت کیسے ہوئی؟

image

صوبہ خیبر پختونخوا کی بونیر یونیورسٹی میں شعبہ انگریزی میں بی ایس آٹھویں سیمسٹر کی طالبہ شادی شدہ اور 2 بچوں کی ماں تھی۔ ایک بچہ 3 سال کا تھا جبکہ چھوٹا بیٹا ابھی کچھ ماہ کا ہی تھا۔ بچہ چھوٹا تھا، ماں اکثر اپنے ساتھ اس کو یونیورسٹی لے جایا کرتی تھی۔ جہاں بچے کو دودھ پلانے اور پیمپر بدلنے کی پریشانی ہوتی تھی۔ لیکن جامعہ میں ایک جنریٹر روم تھا جس میں ماں اپنے بچے کے ساتھ چلی جاتی تھی، بچے کو دودھ پلاتی تھی اور اس کو سلاتی بھی تھی۔ کمرے میں طالبہ نے اپنی سہولت کے لیے کرسیاں بھی رکھی ہوئی تھیں۔

اکثر لائٹ چلی جاتی تو جنریٹر کو آن کر دیا جاتا تھا۔ ایک دن جب ماں اپنے بچے کو لے کر اس کمرے میں گئی تو جنریٹر بند تھا۔ دونوں ماں بچہ اندر تھے۔ ماں بچے کو دودھ پلا رہی تھی کہ اچانک دونوں کی موت ہوگئی۔ جب لائٹ گئی اور جنریٹر آن کرنے کے لیے کمرے پر دستک دی گئی تو دروازہ نہ کھلا، تھوڑی دیر بعد جب کمرے کا دروازہ توڑ کر دیکھا گیا تو معلوم ہوا ماں اور بچہ دونوں بیہوش پڑے ہیں اور کمرے میں زہریلی گیس ہر سو پھیلی ہوئی ہے۔ جبکہ اس کمرے کی کھڑکیاں بھی بند تھیں۔

انھیں باہر نکالا گیا اور ریسکیو 1122 کو بلایا گیا لیکن دونوں کی جان نہیں بچائی جا سکی۔ جامعہ میں اس وقت نہ تو کوئی ایمبولینس موجود تھی اور ہسپتال لے جانے کے لیے کوئی گاڑی بھی موجود نہیں تھی۔ طالبہ کا ایک ہم جماعت جب وہاں پہنچا تو اس نے دیکھا کہ بچہ بری حالت میں ہے اور ماں بیوش ہے۔ لڑکوں نے اپنی مدد آپ کے تحت بچے اور ماں کو ہسپتال پہنچایا جہاں ماں اور بچہ دونوں ہی زندہ نہ بچ سکے۔

یہ ہماری جامعات کا حال ہے، جہاں بنیادی سہولیات نہ ہونے کے برابر ہیں۔ اس کے علاوہ سب سے بڑا مسئلہ دودھ پلانے والی ماؤں کا ہے۔ جو مجبوری کے تحت بچوں کو یوں عوامی جگہوں پر دودھ پلاتی ہیں، لیکن لوگ انہیں اس حقارت سے دیکھتے ہیں جیسے وہ کوئی گناہ کر رہی ہوں۔ جیسے ہر انسان کو بھوک لگتی ہے، بچوں کو بھی لگتی ہے۔ لیکن ہم اس بات پر سنجیدگی سے نہیں سوچتے۔

You May Also Like :
مزید