بچپن کی انمٹ یادیں‎

السلام علیکم

کائنات کی تخلیق کا اصل حسن انسانوں سے جو ہے سو ہے۔ مگر اس سے انکار نہیں چاند، سورج، ستاروں، کہکشاں، موسموں، فضاؤں اور پھول بوٹوں سے دوبالا ہے۔ بچوں سے دنیا میں رونق ہے مگر بچوں کیلئے رونق ان سے ہے۔ ہم نے بھی بچپن میں اپنے یہاں کونسا پرندہ نہیں دیکھا۔ گلہریوں کی پھرتی، نیل کنٹھ، کوئل کی کوک، ہدہد کا تاج پھیلانا (کا کھولنا)، مور کا پروں کا پھیلانا اس کی شوخیاں،فاختہ، کبوتر، مینا، طوطے، چڑیاں، رنگ برنگی تتلیاں، ابابیلوں کا شام کو اکٹھا سفر، کوؤں اور چیلوں کا آسمان پر سایہ، بطخیں اور انکی جمہوریت اور خدا سے قربت، بطخیں اور ان کی جمہوریت اور خدا سے قربت۔ گرگٹ کا رنگ بدلنا، کچھوے کی چال اور خول میں چلے جانا، خرگوش کی تیزیاں، مرغیوں چوزوں کی رونق۔ مرغے کی اذان کی صدا، سڑکوں پر چوپایوں کی آزادی۔ آوارہ کتوں کی محلے کی حفاظت، چوہوں کا گھومتی بلیوں سے ڈر۔ تیتر بٹیر کی لڑائ، گلی سے بھیڑ بکریوں کے ریوڑ کا گزرنا، اس میں میمنے کی معصومیت، لالوں کا نماز کے اوقات میں خاموشی سے چپ چاپ گول دائرے میں بیٹھنا، چمگادڑوں کا رات کو غول، چڑیا گھر میں ہرنی کی چوکڑیاں۔ الو کا خاموش بیٹھ کر دیکھنا، ہاتھی کی سواری۔ بطخوں کا تیرنا۔ بندروں کے تماشے، شیر کی دھاڑ، سہیح کا تنہا اپنے کانٹوں پر ناز و انداز۔ مصنوعی سانپ اور چھوٹے چھوٹے پنجروں والے پرندوں کا ملنا، بچوں کا ڈ ر جانا اور خوش ہونا، رات کو جگنو کا چمکنا۔ ان پرندوں کی بولیاں، ان کی یکجہتی، پھلوں سبزیوں اور پھولوں کا اگنا، مالی بابا کا گلدستہ بنا کر دینا۔ غباروں کا اڑنا، رنگ برنگی گڈ یوں سے فضا میں رونق مگر اپنی اپنی حدود میں رہتے ہوۓ۔ وقت کے تقاضے بدل جاتے ہیں۔ آسمان کا جہاز سے پرچے پھینکنا، جنگ کے دنوں میں جہازوں کی لڑائ، جنگ اور رمضان میں سا ئرن کی آواز، جنگ کے خطرات میں پہلے دمدار ستارے کا نکلنا۔ باہر سڑک پر گھومنے والا جھولا، چاند نکلنے پر سائرن کی آواز سے سب محظوظ ہوتے تھے۔ بندر والا، ریچھ والا، پٹاری میں سانپ والا، اونٹ والا، چلتی پھرتی فلم والا، پلاسٹک کی گڑیا، کھلونے، مٹی کے برتن، چابی والے کھلونے، نان چنے والا، لچھے والا، پاپڑ والا اور ڈبل روٹی بن والا اسکول کے ٹائم۔ شہر میں بہت کم گاڑیاں اور صفائ ستھرائی بہت۔ اسکول کے ٹانگے بہت خوبصورت قمقموں والے اور سفید گھوڑے جو گاڑیوں سے مقابلہ کر کے سر پٹ دوڑتے تھے۔ امیر غریب سب یونہی خوش رہتے تھے۔ پہلے لوگوں کو لائبریری کا شوق تھا۔ وہاں سے بچے اسکول کے زمانے ہی سے اپنے لیے کارٹون اور ناول اور کہانیوں کے رسالے لیتے تھے۔ ہمارے یہاں بھی بہت بڑی لائبریری تھی مگر ہم بچے تھے کونسا رسالہ تھا جو نہیں آتا تھا۔ نونہال، بچوں کی دنیا، اردو ڈائجسٹ، انگریزی اور مذہبی رسالے۔ سائنس کے کرشموں کی کتاب سے ہم نے ریڈیو بنایا، کاغذ کے جہاز بنا کر اڑاتے، پلائی وڈ کے جہاز بچے گراؤنڈ میں اڑاتے تھے۔ ہم نے ایک بیرنگ والی لکڑی کی ایک گاڑی بنائ اسے دھکا دو تو وہ چلتی تھی اور ہینڈل سے کنٹرول ہوتی تھی مزہ بڑا آتا تھا۔ کراۓ پر سائیکل چند آنوں میں مل جاتی تھی فی گھنٹہ کے حساب سے، سب کے گھروں میں گراؤنڈ بھی تھے۔ سڑکیں بھی کشادہ تھیں اور واقعات بھی نہ ہونے کے برابر تھے۔ شہر بہت پھیلا ہوا نہیں تھا۔ میل جول آپس کا بہت اچھا تھا، موسم بہت سہانے تھے، خصوصاً بہار کا خزاں کے پتوں کا جھڑنا اور اکٹھے ہو کر گرنا اچھا معلوم ہوتا تھا۔ساون کا مہینہ بہت دل کشا ہوتا تھا۔ گھروں کے باہر پھلواری، باڑوں کی رونق اور درختوں کے جھرمٹ میں آبادی۔ چھوٹے بڑے کا ادب۔

ہمیں اللہ نے بنایا، زندگی اور موت بنائ، ہمارے لیے جزا اور سزا کا انصاف مہیا کیا، کرنے نہ کرنے کا اختیار دیا۔ اس میں ہمارا ہی فائدہ ہے۔ ہمیں اصول اور عبادت کرنا اسی نے سکھائے اور راہ متعین کرنا اس نے بتایا۔ پہلے لوگ بہت محنت کرتے تھے۔ سادگی اپنائیں۔ پہلے امیر و غریب تقاریب میں مناسب لباس زیب تن کرتے اور کھانا بھی مناسب ہوتا جو بوجھ سب اٹھا لیتے ہیں۔ سلیقہ مند لوگوں کے یہاں ضرورت کی ہر چیز مہیا ہوتی۔ سوئ اوزار باغبانی کی چیزیں، سیڑھی سے لے کر مستری بڑھئ کا سامان، پرانے کپڑے سے لے کر کترن تک لوگ ضائع کچھ نہیں کرتے تھے۔ کچن کے معاملے میں گھر کا اناج، سبزی پھل، مصالحہ پیسنا۔ کنبہ بہت بڑا ہوتا۔ گھر میں سب کچھ ہنر مندی سے اور محنت سے کرتے تھے۔ اب کچن میں جدید سامان ہے۔ گھر بیٹھے سہولت ہے منگوانے کی۔ سل بٹا اور ہاتھ کی مشینیں ہوتی تھیں۔ لذت اور ذائقہ بہت تھا۔ مینیو میں بہت کچھ ہوتا تھا۔ اچار چٹنی مربے شربت سمیت۔ گھر کا سب کچھ۔گھروں میں پتلوس، سبزی دھونے کا پیتل کا، حمام غسل خانے میں، کدو کش۔ نعمت خونہ رات کی بچی چیزیں رکھنے کے لیے، جعلی کا چھوٹی سی الماری نما ہوتا۔ مرچ مصالحے رکھنے والی ڈلیا خانوں کی بنی ہوئ ڈھکن والی۔ چھاچھ۔ لوٹا ہر وقت بزرگوں کے پاس رہتا وضو کے لیے۔ کیاری میں مٹی میں وضو کرتے، کھلے صحن میں نماز پڑھتے یا نماز کا تخت ہوتا۔ اس میں تسبیح، مذہبی کتابوں کا خانہ بنا ہوتا۔ قرآن کے لیے ریحل ہوتی۔ پان دان نانی اماں کا مشہور ہوتا۔ اس میں بچوں کے لیے کرارے نوٹ، محفلوں میں پان دینے کے لیے اسے پانوں کے خول میں رکھ کر دیتے۔ اطر والی خوشبو دار کلی سی بنی ہوتی، پیش کرتے۔ گاؤ تکیے، مسند، تل دانی سوئ دھاگوں کے لیے پرو کر رکھتے اور جانے کیا کیا سلیقے نہیں تھے۔ ہر قسم کے اچار رکھنے کی گھڑونچی، مرتبان۔ مٹکے گھڑے اور صحرائی پانی کی۔ ماشکی والا۔ ہینڈ پمپ گھروں میں ہاتھ کے پنکھے۔ ہر چیز پر کور چڑھا ہوا۔ پیٹی اور سائیکل پر۔ جگہ جگہ فوارے، گھروں میں بھی فوارے تھے۔ اس میں بچے گھس کر نہاتے تھے۔ بارش میں صحن میں پانی بھر جاتا تو پتلیوں میں بیٹھ کر تیرتے۔ کاغذ کی ناؤ بنا کر پانی میں چھوڑتے۔ پر نالے میں کھڑے ہو کر محظوظ ہوتے۔ چھتیں آپس میں ملی ہوئ تھیں تو دوڑتے۔ بسا اوقات شہد کی مکھی اور پیلی بھڑ کاٹ لیتی تو بچے پھول کر کپا ہو جاتے۔ چینوں مینوں لگتے تھے۔ آنکھ مچولی گڑیا گڈے کی شادی۔ اسکولوں میں بزم ادب اور تقاریر کی محفلیں ہوتیں۔ ماچسوں سے چیزیں اور صوفے بناتے۔ بزرگ کپڑے کی گڑیاں بنا کر دیتے۔ اسکول میں کوکنگ کا پیریڈ ہوتا اور امتحانات میں مختلف کھانے بنا کر لاتے۔ پہلے جالی والے برقعے کا رواج تھا بہت نظر آتا تھا۔ علاوہ محفلوں کے غرارے اور ساڑھی لوگ گھر میں بھی پہنتے تھے۔ شب برات میں انار اور پھل جھڑیاں سلگا کر خوش ہوتے۔ عید میلاد النبی میں پہاڑیاں بنا کر۔ میلے بھی لگتے۔ فوجی نمائش ٹینکوں کا اہتمام ہوتا۔ میلا مویشیاں بھی ہوتا۔ سیر کے لیے چڑیا گھر، قلعہ، بادشاہی مسجد، جہانگیر کا مقبرہ، شالامار باغ، چھانگا مانگا کی طرف رخ بہت تھا۔ انارکلی بازار، اندرون شہر بازار اور اچھرہ وغیرہ لوگ باآسانی جاتے۔ دوسرے شہروں سے بھی شاپنگ کرتے۔ مگر اب سب ایک جگہ سے ہی مہیا ہو جاتا ہے۔ شاپنگ مال بن گئے ہیں۔ آن لائن سہولت ہو گئ ہے۔ کھیلوں میں کرکٹ، ہاکی، باکسنگ، کشتی، فٹ بال اور چڑی چھکا کیرم لڈو کا عام شوق تھا۔ عید کارڈ بانٹنے کا رواج، لٹو گھمانا، ڈنکی کاروں سے کھیلنا، بچے چوڑی دار پجامے، فراکوں اور لہنگے میں پیارے اور بھلے معلوم ہوتے تھے۔ اسکول کے باہر سے بچے فالسے، کیری، چھلنییاں، رنگ برنگ گولے برف کے، مولیاں اور املی سے بہت ہی خوشی محسوس کرتے لے کر۔ آدھی چھٹی اور اسکول کی چھٹیاں بچوں کے لیے کسی خوش خبری سے کم نہ ہوتیں۔ باہر تفریح گاہوں کے علاوہ گھروں میں بھی جھولے۔ موٹی سی رسی کنڈے میں لگی ہوئ اور لکڑی کی تختی اپنی مضبوطی کا ثبوت دیتی تھی۔ بچے بڑے سب اس پر بیٹھ کر بہت ہی محظوظ ہوتے تھے جیسے دنیا کی سب سے بڑی اور پر سکون خوشی اور لمحے اس سے بڑھ کر کوئی نہیں۔ جھولا آسمان کی طرف بڑھتا تھا اور سانس خوشی سے پھولتا تھا۔ ڈیوڑی میں لگا جھولا دنیا کی سب سے بڑی خوشی دیتا تھا۔ بی پی کی ٹافی، سیون اپ ٹین میں اور چوکو بار اور اورنج آئسکریم سے بہت پرانا ساتھ۔ قلفی اور چنے گول گرم بچوں کے پسندیدہ آئٹم تھے۔ پہلے وقتوں میں لوگ گھروں کی سوغات دوست احباب کے ہاں بھیجا کرتے تھے۔ بچے اور بڑے شیخ سعدی، حکا یا ت رومی، ملا نصر الدین کے لطیفے، انسائیکلو پیڈیا، کھانے کی میز پر چیستان، رات کو سوتے وقت بوجھو تو جانیں کھیلتے تھے۔ میدان میں ریس لگانا، سائیکلیں اچھے شغل تھے۔ ملک ملک کے ٹکٹوں کا جمع کرنے کا شوق۔ گھر میں اور اسکولوں میں پھولوں، پھلوں، پرندوں اور جانوروں، الف بے ہے اور اے بی سی کے چارٹ لگے ہوتے۔ بچوں کو بتانے اور سمجھانے کی ضرورت نہ تھی۔ مذہبی اشعار، مرزا غالب اور علامہ اقبال شاعر مشرق کے اشعار ادبی ذوق والے یاد رکھتے اور مزاحیہ کارٹون، مزاحیہ لطیفے اور مزاحیہ اشعار بچے بڑے بھی پسند کرتے۔ سلائ کڑھائی سیکھنے کا اسکولوں میں ایک پیریڈ ہوتا تھا۔ شوق تھا اکثریت کو۔ ڈرائنگ بچوں کا پسندیدہ پیریڈ ہوتا۔ آج بھی بہت سے بچے اچھی مصوری کرتے ہیں بغیر سیکھے اور جانے۔ سیرو سیاحت اور ڈرائیونگ اور فوٹو گرافی اچھے شوق ہیں۔ قدرتی صلاحیتوں کو ابھارے اور استعمال کیے بغیر انسان نارمل نہیں رہ سکتا۔ آندھی اور بارش کے بعد آسمان پر دور افق پر رنگ برنگی قوس و قزح ، دھنک کمان، کبھی کبھار تیز جھکڑ سے آندھی اور طوفان کے بعد کوئ ٹین کی چھت اڑ گئ یا بجلی چلی گئ جسے ہم بچے پنکھا چلا گیا اور آ گیا کہتے تھے۔ ایسے ہی بہت ہجوم میں کبھی کبھار آپس کا کوئ ہنگامہ ہو گیا مگر سنبھل گیا۔ ایسے ہی رات کو دھکا ہوا کالا آسمان اور ستاروں کی جھلملاہٹ خوش نما معلوم ہوتی تھی۔ کھلے کھلے گھر اور باہر گھروں کے گراؤنڈز میں مختلف پھول بوٹے کچنار ہار سنگھار کے پھول چولائ کا ساگ اور پودینہ وافر ہوتا تھا۔ آم کے درخت، جامن، لیموں،کیلے گھروں میں لگے ہوۓ۔ مختلف جڑی بوٹیاں اور شہتوت وافر مقدار میں۔ گولر کا درخت اور منگولیا کے سفید پھول، دھریک اور نیم کے سایہ دار درخت ایک منظر پیش کر تے تھے۔

سن 70 اور 80 کا دور نسبتا" ا چھا اور پر سکون۔ ہم سے بھی پہلے وقتوں میں بہت سی پریشانیاں اور خطرات کم تھے۔ ہم نے بڑوں سے ہی سیکھا استاد کا ادب، اپنے دور کے رہنماؤں کی عزت اور پہلے وقتوں میں گھریلو ملازم اور پیشہ ور لوگ قابل بھروسہ اور وفادار ہوتے۔ اپنے پیشے سے وفا اور پڑھائ اور ہنر میں صحیح سمت کا تعین کرنا چاہئیے۔ اچھائ ہر دور کا تقاضہ اور حصہ بنی رہی۔ اپنے دور کے سبھی شیدائی ہوتے ہیں۔ ہمارے بڑے اپنے بڑوں کے ایثار قربانی اور سستائ کا تذکرہ کرتے اور محنت شعار تھا۔ اب دور جدید ہے۔ سہولیات زیادہ ہیں۔ گھر بیٹھے آپ دنیا کی سیر خبروں سمیت کر سکتے ہیں۔ بہت سی وڈیوز نظر سے گزریں اور بہت سے پیغام سننے کو ملے۔ بہت لوگوں نے جانوروں کی دیکھ بھال کے لیے شیلٹر ہوم بناۓ ہیں۔ اللہ کی تخلیق کی قدر اس کی بنائ ہوئ ہر نعمت جو دی گئ ہے اپنے اپنے دائرہ اختیار میں رہتے ہوۓ حفاظت کرنی چاہئیے۔ پرانے وقتوں میں لوگ ایک دوسرے کے خیال و فکر کے تھے۔ گھر کی کھیتی باڑی اور گھر کے جانور کی وجہ سے ان میں ان کی اقدار تھیں۔ گزرے وقتوں کی باتیں ہیں آقا ہو شاہ ہو یا مالک ان کے فرمان صحیح ہوں تو ان کے غلام ان کے تابعدار اور اطاعت گزار ہوتے اور ان کے پالتو جانور بھی ان کے وفادار۔ مالک کی زندگی اور موت کے ساتھی ہوتے۔ اس کی مثالیں جا بجا اور قرآن میں بھی تذکرہ ہے۔ اپنے بڑوں کی فرمانبرداری سے ہی بچے صحیح مقام پر پہنچتے ہیں اور اچھی راہ کا تعین کرتے ہیں۔ ایسے ہی جانوروں کی نسلوں میں وفا ہے۔ ان میں خطرات کی آگہی اور نقصان سے بچاؤ ہم سے زیادہ ہے۔ انسان اپنے روشن کشادہ ذہن سے اپنے لیے آسانیاں پیدا کرتا ہے اور جانور آپ کے لیے۔ اللہ نے ہماری سہولت کے لیے انہیں استعمال اور رزق کا ذریعہ بنایا۔ ہم ان کے ذریعے علم حاصل کرتے ہیں مگر سب کچھ اصول اور ضابطے میں رہتے ہوۓ۔ ہماری ہی کوتاہیوں سے ان کے جنگل میں آگ لگتی ہے اور نباتات کا نقصان ہوتا ہے۔ ہم تو ایک بیج بنانے سے بھی قاصر ہیں۔ ہم انسان ہی اپنی تفریح کے لیے انہیں ان کی آزاد کھلی فضا سے قید کر لیتے ہیں۔ نبی پاک(ص) کا فرمان ہے "ان پر رحم کھاؤ، اپنی خوراک سے ان کے لیے کچھ بچا رکھو"

جانوروں کے متعلق مشاہدات

انسان ہی میں یہ کمی اور کوتاہی ہے اپنے سے کمزور پر اختیار لے لیتا ہے۔ جانوروں میں حس اور پہچان ہے مگر خوراک کی تلاش اور ہماری مار بھگاڑ سے یہ اپنے گروہ سے بچھڑ جاتے ہیں۔ آپ انہیں دیں یہ آپ کے گھر تک آئیں گے۔ یہ ،شکر گزار قدردان اور آپ کے حالات کے مطابق صبر والے بھی ہوتے ہیں اور جانور ہونے کی وجہ سے برداشت بہت ہوتی ہے۔ باہر کے آوارہ جانور تو اتنا نہیں لگتے مگر آپ کا پالتو آپ کا ا پنا ہوتا ہے۔ آپ کی حفاظت کرتا ہے۔ جب خدا اپنی قدرت سے سانپ جیسے موذی کو آپ کا مددگار بنا دیتا ہے اور مچھر جیسی حقیر شے ہماری موت کے لیے کافی ہوتی ہے۔ ہمیں اپنے رزق کی جگہ کا تعین نہیں۔ خدا سبب اور وسیلوں سے قریب کرتا ہے۔ ہمیں ان کی خوراک کا خیال چاہئیے۔ ایسا نہ ہو کہ خدا غضب ناک ہو اور ہم ان کی خوراک بن جائیں۔ آج بھی ہمارے یہاں گلی محلے سے کون سی بلی ہے جو نہیں آتی۔ بچے بھی آتے ہیں اور ہوتے ہیں۔ یہ ایک گونگی بلی ہے، یہ ہمارا ٹیبی ہے، اس کا جڑواں کہیں چلا گیا۔ یہ آج بھی روتا ہے۔ ایک دوسرے کے لیے کھانا رکھتے تھے۔ یہ جانور ایک دوسرے سے کھانے پر لڑتے ہیں اور جگہ پر مگر ہم انسانوں سے کم۔ یہ ہمارے لیے کیا ہیں گویا اللہ کا فضل۔ ہم مصنوعی چیز بنا کر خود کو موجد گردانتے ہیں، وہ اللہ بوسیدہ ہڈیوں کو دوبارہ ژندہ کرے گا۔ وہ ہمارے کمزور لاغر جسموں کو شفا بخشنے والا۔ ہم اپنے مصنوعی اعضاء کی کوششوں میں ناکام۔ ہر امیر غریب شہری کو اپنی اپنی استطاعت کے مطابق حسب توفیق ان کا خیال کرنا چاہئیے۔ خدا خوش ہو کر آپ کو بہت عطا کرے گا۔ یہ ہمارے معاشرے کا حصہ ہیں اور ہمارے محتاج ہیں۔

اگر آپ چاہتے ہیں کہ اپنے اندر رحم اور احساس کو بیدار کریں تو دنیا میں ہی اس کا حل ہے۔ اللہ کی خلقیت میں برابری اور انصاف ہے۔ چیونٹی جیسی کمزور اور چھوٹی سی تخلیق سے ہم اپنے اندر یہ تبدیلی لا سکتے ہیں۔ اگر آپ کے کام میں حائل ہیں چیونٹیاں تو جھاڑ کر نکال دیں ، پانی کا کام ہو تو ہٹا دیں یا انہیں ہٹنے دیں۔ چلیں تو دھیان رکھیں کچلی نہ جائیں۔ اول تو وہ بہت چھوٹی ہوتی ہیں نکل جاتی ہیں پاؤں سے۔ اگر آپ ان کے آگے سے خوراک ہٹا دیں تو وہ دوبارہ نہیں لیتیں۔ چیونٹی سے محنت اور خودی کا درس ملتا ہے۔ اس طرح آپ بے دھیانی میں غلطیوں اور نقصان کے موجب نہیں ہوں گے۔ اللہ کو اپنی بڑی سے بڑی اور چھوٹی سے چھوٹی مخلوق سے پیار ہے۔

ہر شہری کو اپنے طور سے گلی محلے کی صفائ ستھرائی کا خیال کرنا چاہئیے۔ بیماری سے پاک معاشرہ۔ ہر حکومت کو بیمار جانور کی خبر گیری کا خیال چاہئیے۔ قانون لاگو کرنا چاہئیے ۔ سڑک کنارے جانوروں کے لیے لکڑی یا اینٹوں کے چھوٹے چھوٹے شیلٹر بنوانے چاہئیے ہیں۔ گرمی سردی سے بچاؤ کے لیے۔ خیرو برکات کا معاشرہ۔ اگر انسان یا جانور کے حق میں ہم سے کوئ کمی کوتاہی ہو گئ ہے تو توبہ اور کفارے کا در کھلا رہتا ہے۔ اللہ نے انسان میں اپنے اندر تبدیلی کی صلاحیت رکھی ہے۔ نبی پاک نے اپنی امت سے اچھا سلوک رکھا اور عفو در گزر پہ عمل پیرا رہے اور ہمیں بھی انسانیت کا درس دیا۔ اور اس پر عمل کی تلقین کی۔ اچھی امیدوں اور دعاؤں کے ساتھ بہت شکریہ۔ از دعاگو۔ خاکی و خطا کار۔

راتیں جاگ کریں عبادت
راتیں جاگن کتے
بھونکنوں بند مول نہ ھوندے
جارڑی تے ستے
تیھتوں اتے
کھم اپنے دا در نہ چھڈ دے
بھا نویں وجن جتے
تیھتوں اتے
بلھے شاہ کوئ رخت وہاج لے
نہیں تے بازی لے گئے کتے
تیھتوں اتے

بابا سید بلھے شاہ رحمتہ اللہ علیہ نے اپنے آپ کو نصیحت کی ہے کہ تم میں اور کتوں میں بازی لگی ہوئ ہے۔ اب کون اپنے مالک کا صحیح قرب اور وصال پاتا ہے یہ اپنی اپنی کوشش پر منحصر ہے۔ بہتر یہ ہے کہ تو نیک اعمال کما لے وگرنہ کتے تجھ سے بازی جیت جائیں گے۔ کون کرتا ہے اس باغ کی رکھوالی نہ رہے جس کا مالی۔ صدا رہے نام اللہ کا۔

Shakeema Abedi
About the Author: Shakeema Abedi Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.