تلخ و شیریں

"اگر کبھی جانے انجانے میں میں نے آپ کا دل دکھایا ہو تو پلیز مجھے معاف کر دیں۔ کیا پتہ۔۔۔۔۔"
شب برات کے موقع پر اس قسم کے پیغامات اور اطلاعات کی بھرمار ہو جاتی ہے۔ تقریباً ہر ایک اپنے پچھلے گناہ بخشوا کر اگلی ٹرم کے لیے کم کس لینا چاہتا ہے۔
شاید ہم اس دن کو معافی مانگنے کے دن کے طور پر مناتے ہیں۔۔۔
شعوری اور لاشعوری طور پر
ہم کسی سے معافی مانگنے کے لیے اس دن یا رات کا انتظار کیوں کرتے ہیں؟
ہم یہ اشتہار دیوار پر کیوں لگانا چاہتے ہیں؟
کیا یہ بھی خود نمائی کی ایک نادر قسم ہے؟
جب بھی ہمیں کسی دوسرے سے زیادتی کر جانے کا احساس ہوتا ہے، ہم اسی اگلے لمحے میں اس سے معذرت کیوں نہیں کر لیتے؟
اسے گلے کیوں نہیں لگا لیتے؟
اگر میں نے سولہ یا سترہ شعبان کو کسی کی دل آزاری کر دی تو مجھے اس کا احساس پورے ایک برس بعد چودہ شعبان کو ہی کیوں ہوتا ہے؟
اس سے پہلے کیوں نہیں ہوتا؟
اور پھر میں یہ معافی نامہ اپنے اسٹیٹس پر لگا کر منتظر رہتا ہوں کہ کون کون اس کو دیکھتا ہے؟
اور اس کے ساتھ ساتھ میں یہ بھی دیکھتا رہتا ہوں کہ مجھے کس نے معافی نامہ بھیجا ہے اور کس نے نہیں بھیجا؟
اور جس نے نہیں بھیجا تو اس نے کیوں نہیں بھیجا۔۔۔ حالانکہ اس نے میرے ساتھ فلاں فلاں موقع پر۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
واہ رے حضرت انساں۔۔۔
تو اپنے ساتھ اپنے خالق کو بھی دھوکہ دینے کی کوشش کرتا ہے۔
اور ہم اس دکھاوے کی معافی تلافی میں الجھ کر ان بابرکت لمحات میں اس ہستی کو فراموش کئے رہتے ہیں جو علی الاعلان پکار رہا ہوتا ہے کہ
"ہے کوئی مانگنے والا کہ میں اس کو نواز دوں۔"
اور وہ جو بن مانگے ہی سبھی حاجات پورا کئے جا رہے ہیں، مانگنے پر کیا نہ دیں گے۔۔۔
کہ
مانگنے کا مزہ آج کی رات ہے
اور
تجھ کو تجھی سے مانگ کر اچھا رہا منگتا تیرا

غلام قادر
سیالکوٹ



Ghulam Qadir Choudhry
About the Author: Ghulam Qadir Choudhry Read More Articles by Ghulam Qadir Choudhry: 5 Articles with 1905 views سیالکوٹ میں مقیم نوجوان لکھاری مختلف میڈیا سائٹس کے لئے لکھتےہیں۔
ادب، سیاحت اور تحقیق ان کے خاص موضوع ہیں۔
.. View More